تحریر: محمد اسماعیل سہروردی
ایک شخص نے ایک درویش کشف وکرامات کی بہت تعریف سنی علاقے کاہرشخص ان کی تعریفوں کے بل باندھتا دیکھاتو اس نے ارادہ کیاکہ میں اس بزرگ کے ساتھ چند دن گزاروں اوردیکھوں ان میں ایسی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے متاثرہیں۔ چنانچہ اس نے بزرگ سے گذارش کی کہ میں چند دن آپ کے ساتھ رہ کر آپ کی خدمت کرنا چاہتاہوں۔آپ کی صحبت اختیار کرناچاہتاہوں ۔انہوں نے اجازت دے دی۔وہ شخص ان بزرگوں کے ساتھ رہنے لگا اور نوٹ کرنے لگاکہ ان میں کیاخاص بات ہے۔کچھ عرصہ ساتھ رہنے کے بعد اس نے ان سے اجازت مانگی کہ مجھے اب جانے دیاجائے تو بزرگ نے کہاکہ کیاہوا۔؟ کہنے لگاکہ میں نے توآپ کے کشف و کرامات کے متعلق بہت سُناتھامگرجتنا عرصہ آپ کے ساتھ رہامجھے آپ میں کوئی ایسی بات نظر نہیں ا ئی لہذامجھے اجازت دیں۔بزرگ نے فرمایاکہ تم جاناچاہتے ہوتمہیں اجازت ہے مگریہ بتائو جتناعرصہ تم مرے ساتھ رہے ہو کبھی مجھے شریعت سے ہٹ کر کام کرتے دیکھاتواس شخص نے کہانہیں میںآپ کو کبھی شریعت سے ہٹ کر کام کرتے نہیں دیکھاتو بزرگ نے کہاکہ اس وجہ سے میرے اللہ نے مخلوق میں میرانام بلندکیاہے کہ میں اس کے حکم سے ہٹ کر کام نہیں کرتا۔ہمارے ہاں لوگ لنگوٹ بند ملنگوں، فقیروں بھیک مانگنے والوں،گلے میںمالا موتی وغیرہ ڈالنے والوں کوولی اللہ مانتے ہیں۔حالانکہ جوشخص شریعت کے دائرے میں رہ کر صبرشکرسے زندگی گزارے میری نظرمیں وہ وہی ولی ہے۔ محمدعلی ڈوگربھی ایسے ہی اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک تھا۔ ہروقت باوضو رہنا،نماز کے وقت فوراً جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا۔خلق خداکاخیال رکھناتھوڑے میں سبرشکر سے گزارا کرنا،رزق حلال کمانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔سب سے بڑھ کر نیت کابہت اچھاتھا کبھی کسی کے ایک رویے کا بھی روادارنہ ہوتا۔پہلے ایک سکول میں ملازمت کرناپھر رکشہ چلانااس کی رزق حلال کمانے کے لیے کاوش تھی بھرپور گرمی میں رکشہ بھی چلانااور روزے رکھنا اس کا معمول تھا انتہائی سادہ نرم دل اوردرد دل رکھنے والا انسان تھا رکشہ چلاتے وقت کرایہ بہت کم لیتاتھاکہ کہیں کسی سے زیادتی نہ ہوجائے کبھی کبھی دوستوں میں آواز کاسحربھی نچھاورکرتا۔ خلق خدا کی محبت اورخلوص نیت اس کی صفات میں سے نمایاں تھیں وہ اپنی ذات میں ایک بہترین انسان تھا جس میں روپے پیسے کا لالچ بالکل نہیں تھا کبھی کبھی تو اس کی خاموشی سے یوں لگتاجیسے وہ ایک ہاراہواتھکاہوانسان ہے مگر اس کی قربت میں رہ کر اندازہ کہ ایسابالکل نہیں بلکہ وہ ایک درویش صفت انسان ہونے کی وجہ سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے وہ ایک صاحب بصارت وبصیرت انسان اورخلوص کاپیکرتھا۔ اس میں مایوسی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس نے اپنے محدودوسائل کے باوجود اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھائیں۔اس نے اپنی زندگی کو بہت اعتدال میں رکھاتھاکبھی اپنی چادرسے بڑھ کر پائوں نہیں پھیلائے تھے یہی اس کی کامیابی تھی۔ دوستوں سے اس کامیل جول ایسے ہوتاجیسے فیملی ممبرز کاہوتاہے ہمیشہ نظریں جھکاکربات کرنااس کا وطیرہ تھا اس کی شخصیت بہت سحر انگیزتھی اوراللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھااکثر وہ واقعات سناناجب کوئی سواری اسکی شخصیت دیکھ کرٹھٹھک جاتی اورپوچھتی کہ رکشے والے آپ ہی ہیں؟ کیونکہ بظاہر وہ ایک امیرکاروباری شخص لگتا تھا۔اس کی انسان دوست طبیعت کا اندازہ اس کاجنازہ دیکھ کرہی ہوتاتھاجب ایک جامع مسجد کاصحن بھر کرلوگ باہر کھڑے تھے۔
شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ جس نے بھی اس کی فوتگی کاسُنا سکتے میں آگیارات کھانا کھاکرمعمول کے مطابق دس بجے کی خبریں چائے پیتے ہوئے سُنی پھر لیٹ گیا۔ فجرکے وقت اٹھنا معمول تھا مگرآج اس کی آنکھ نہیں کھلی۔وہ ابدی نیند سوچکاتھا۔رات نیند میں پڑنے والے دل کے دورے نے اُسے تکلیف سے کراہنے کاموقعہ بھی نہیں دیا۔اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی تھی۔وہ جاتے جاتے بھی کسی کو تکلیف دیئے بغیرچلاگیا۔آج کے اس پرشکن دورمیں اتنی سادگی، اتنا صبر شکر اورشریعت کاپابند شخص بلاشبہ کسی ولی سے کم نہیں اس روز فیصل آبادکی ڈوگربستی میں داخل ہونے والے ہر شخص کی زبان پرتھا۔
” بندہ بہت چنگاسی”
43