اسلام آباد(بیوروچیف)قومی احتساب بیورو (نیب)کا سیکڑوں ارب روپے کی ریکوری کا دعوی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا واقعہ ہے تاکہ اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے غیر معمولی کارکردگی دکھائی جا سکے۔ نیب کے ذرائع نے کچھ ایسی مثالیں شیئر کی ہیں جن سے نیب کے دعووں کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ نیب نے دعوی کیا تھا کہ جاوید اقبال کے دور میں 500 ارب روپے ریکور کیے گئے تھے تاہم چیئرمین کے دعوے کے برعکس اس ریکور کردہ رقم کا کہیں وجود نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں مستعفی ہونے والے چیئرمین آفتاب سلطان نے متعلقہ افسران کو ہدایت کی تھی کہ مبہم اور مشکوک ریکوریاں بتانے کی بجائے صرف وہی بتایا جائے جو اصل اعداد و شمار ہیں۔ سلطان نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ سالانہ رپورٹ میں بالواسطہ ریکوریاں ظاہر نہ کی جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے سرمایہ کاری کے تنازع میں کارکے رینٹل پاور کے 1.2 ارب ڈالرز کے جرمانے کا معاملہ طے ہونے کے بعد نیب نے اپنی فائلوں میں مئی 2020 میں 192 ارب روپے کی ریکوری دکھائی تھی اور اس وقت اوپن کرنسی مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 160 روپے تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت نے تین افسران کو انعام سے نوازا تھا جن میں احمد عرفان اسلم (کنسلٹنٹ / ہیڈ آف انٹرنیشنل ڈسپیوٹ یونٹ، اٹارنی جنرل پاکستان آفس)، بریگیڈیئر رانا عرفان شکیل رامے (سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی) اور کرنل فاروق شہباز (آئی ایس آئی) شامل ہیں۔ لیکن نیب نے اسے اپنی کامیابی قرار دیا۔
34