تحریر: حامد سلطان داؤدی
میدان صحافت کے مجاہد محترم جمیل اطہر قاضی (ستارہ امتیاز) کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ایک عہد کی سرگزشت صحیح معنوں میں رہمنائے صحافت ہے جس میں ایک مرد جدوجہد نے اپنی ذات کے بلند بانگ دعوے کرنے کی بجائے زندگی کی تلخ اور خوش کن کیفیات کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے بزرگان دین کے اس درس کو حقیْت کا روپ دیا ہے کہ اچھے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو محبت سے یاد رکھتے اور ان کا تذکرہ کرتے ہیں، کتاب میں مصنف نے اپنے دل میں سجی، اپنی ذات کے حوالہ کے ساتھ مدیران اخبارات، علما کرام، اساتذہ کرام، سیاست دان، روحانی شخصیات، کارکن صحافیوں، احباب، اخبار فروش، بیوروکریٹ، شعرا کرام کا جس خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے تمام شخصیات کے تذکرہ میں اپنی یاداشتوں کے واقعات کو نہ صرف خوبصورت انداز میں لکھا ہے بلکہ انہیں عزت دی ہے جس سے احساس ہوتا کہ اپنی ذات کی میں کو اجاگر کرنے کی بجائے ان کے ساتھ محبت کا اظہار کرکے ایک مثال اس اعتبار سے قائم کر دی ہے کہ اکثر حالات زندگی پر اپنی یاداشتیں لکھنے والے اپنی ذات ہی کو اجاگر کرتے ہیں۔
ایک اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جس سے پڑھنے والا کچھ سیکھے یا کوئی سبق حاصل کرے، ایک عہد کی سرگزشت سے میرے ان تصورات، خیالات کو تقویت ملی کہ زندگی کی معراج روحانیت کے تابع ہے، اور ہر شخص کی زندگی کے کامیاب ستون ماں باپ کی رہنمائی اور دعائیں ہیں، کتاب میں جس عقیدت کے ساتھ ماں باپ کے ساتھ مصنف نے اپنی چاہت کا اظہار کیاہے وہ یہ باور کرواتا ہے کہ ماں باپ بہترین استاد اور مرشد بھی ہیں ان کی دعائیں زندگی کی راحت اور سکون کا ذریعہ ہیں۔ کئی برس قبل میں والد مرحوم کے ہمراہ ممتاز روحانی شخصیت صوفی برکت علی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا تھا، میں نے ان سے دعا کی خواہش کی تو کہنے لگے تمہارے ساتھ کون بیٹھے ہیں میں نے جواب دیا کہ والد صاحب تو کہنے لگے، میری اس بات کو یاد رکھنا کہ زندگی میں باپ سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں دے سکتا، ان سے دعا کروایا کرو۔یہ بات زندگی کی اٹل حقیقت بھی ہے ماں باپ کی دعائیں ہی کامیابی اور کامرانی کا آہنگ ہیں، جو کہ نہ صرف ان کی زندگی بلکہ بعد میں بھی شامل حال رہتی ہیں۔
کتاب میں پرنٹ میڈیا کے طویل ماضی کی بھرپور جھلک ملتی ہے جو اس امر کی عکای کرتی ہے کہ پرنٹ میڈیا قیام پاکستان سے لے کر اب تک بلندی اخلاق اور وسعت نظری پر محیط رہا ہے، یہ شعبہ جو ماضی میں انسانی زندگی کے دلچسپ حالات و واقعات، افسانہ، صنعتی تجارتی مسائل،حیرت انگیز واقعات، سائینس، تعلیم، مذہب، سماجیات، پر محیط رہا اور اس نے ادب، قومیت کی پہچان، دیسی تمدن، فن و ثقافت، کو بھی اجاگر کیئے رکھا۔
برس ہا برس پرانی یہ روائیت اب صحیح معنوں میں حقیقت کا روپ بن چکی ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے، دنیا میں ساری جنگیں میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں، سیاسی لڑائیاں ہوں یاا قتصادی حتیٰ کہ علمی معاشی، سائینسی ترقی کے امور میڈیا پر زیر بحث لائے جا رہے ہیں، آج کا میڈیا حکومتی ریاستی اور عسکری طاقت سے بھی زیادہ موثر اور ہلاکت خیز بن چکا ہے، پرنٹ میڈیا کی تاریخ میں ماضی کے تربیت یافتہ، تحقیق سے مرقع اہل قلم شخصیات ہیں جن کا ذکر مذکورہ کتاب میں بار بار ہوا ہے اور یہ وہ قابل قدر ہستیاں ہیں جنہوں نے زندگی میں لکھنے سے پہلے اورلکھنے کے بعد کے معیار کو تابندہ رکھا، کتاب صحیح معنوں میں ایک صحافتی اخلاق کا انسائکلوپیڈیا ہے جس کی قدریں اب آہستہ آہستہ ناپید ہو رہی ہیں
تاریخی حالات و واقعات کے تناظر میں کتاب ایک عہد کی سرگزشت میں مصنف نے مختلف احباب کی سوانح عمری کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس میں جا بجا عملی زندگی کی رہنمائی بھی ہے، بالخصوص میڈیا سے تعلق رکھنے والی نئی نسل کو علمی صحافتی بالغ نظری فراہم کرتی ہے جس سے پیشہ ورانہ کارکردگی کو موثر بنایا جا سکتا
ہے، جوں جوں مختلف شخصیات کے بارے میں پڑھتے جاتے ہیں فکری اور عملی سوچ کو توانائی ملتی ہے۔ آج کے دور میں بچہ جیسے ہی دو تین سال کا ہوتا ہے اسے آئی پیڈ(ٹیبلٹ) یا سمارٹ فون دے کر دہیانے لگا دیا جاتا ہے جس سے معاشرہ میں تشدد، عدم رواداری کا کلچر پنپ رہا ہے جب کہ ماضی میں ماں باپ بچے کے ذہن کی قصے کہانیاں سنا کر نشو نما کیا کرتے تھے، انہیں بچوں کی کتابیں لا کر دیتے جس کے ذریعے ان میں بڑھوں کا ادب، اچھے اخلاق، محنت، جدوجہد، کی فکری سوچ کو پروان چڑھایا جاتا تھا، یہ بھی ایک حقیقت ہے انسانی یاداشتیں زندگی کا حصہ ہوتی ہیں جو کہانیوں کی طرح ہوتی ہیں، اور اگر ایسی یاداشتیں عام کی جائیں تو اس سے دوسروں کو عملی زندگی میں تجرباتی رہنمائی ملتی ہے اور ان حالات و واقعات کا اشتراک ایک اچھی سوچ کے ساتھ معاملات زندگی کو خوبصورت بنا دیتے ہیں، اچھی سوچیں زندگی کا سرمایہ ہیں، اگر بغور دیکھا جائے تو اچھی سوچ دنیا اور آخرت دونوں کے لیئے فلاح کا باعث ہے، دنیا میں عزت اچھی سوچ سے ہے دکھاوے سے نہیں اور اخروی سکون اچھے عمل سے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
انہیں موخر الذکر امور سے جڑی ایک عہد کی سرگزشت ایک ایسی خوبصورت کتاب ہے جس کے بارے میں بر ملا کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ کے اظہار کی ایک ایسی تاریخ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائیگا، میری دعا ہے کہ رب کائینات مصنف کے قلم کی روانی کو حاسدین کے حسد، اور شریروں کے شر سے محفوظ رکھے اور انہیں اچھی صحت اور کامیابیوں سے نوازے جو ان کے اس صحافتی تخلیقی سفر میں معاون رہے جسے انہوں نے خون جگر سے روشن رکھا ہے۔ایک عہد کی سر گزشت” تیسرا ایڈیشن کتاب انتہائی خوبصورت، نفیس ترین طباعت، اسقدر خوبصورکتاب ہے کہ میں نے زندگی میں ایسی سوانح عمری کی کتاب نہیں پڑھی اور نہ دیکھی، با الفاظ مجموعی کتاب عام صحافی، اور ماس کیمیونیکیشن کے طلبا کے لیئے کسی قابل قدر انسائیکلو پیڈیا سے کم نہیں۔
39