اسلام آباد (بیوروچیف) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ہماری نیت درست ہے، نکتہ چینی کی پرواہ نہیں۔سابق وزیراعظم شہباز شریف نے پیغام بھیجا تھا ،شہباز شریف نے کہا ذہنی طور پر تیار ہیں اہم ذمہ داری ہے۔قانون کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابات کا فیصلہ کرے گا،سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمارے لئے قابل قبول ہو گا۔میرا کہنا تھا کچھ لوگ احتجاج کو سول وار سے تشبیہ دے رہے ہیں جبکہ ایسا نہیں۔عسکری پسندوں کے معاملے میں مذاکرات اور طاقت کا استعمال دونوں کرنا چاہئے۔ہم پر امن اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں،دونوں طرف سے ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے راستے موجود ہیں۔بھارت سے ہم جنگ نہیں چاہتے، امن سے انکار کیا جائے تو پوری دنیا کیلئے لمحہ فکر ہو گا۔سمجھا جا رہا تھا افغانستان میں نئی حکومت سے حالات بہتر ہوں گے،افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے بلکہ زیادہ بگڑ گئے۔چھوڑے گئے جنگی آلات کے استعمال کے اثرات پورے خطے میں نظر آئیں گے۔نگران وزیراعظم انوار الحق کا کڑ کی گفتگو نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ نگراں وزیراعظم بنوں گا۔دوستوں میں مذاق کی حد تک ایسی باتیں ہوتی تھیں،عہدے کی خوشی اپنی جگہ، لیکن پریشر بھی ہوتا ہے۔نہیں چاہوں گا کہ آئین کے مطابق وقت سے زیادہ یہاں گزاروں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت ایسا نظام بناتی ہے جس سے محروم طبقے پر خرچ ہو،مجھے اندازہ ہے ایسا طبقہ ہے جس پر انتہائی بوجھ ہے۔ماضی میں ایک بار اپنا بجلی کا بھاری بل دیکھ کر ہوش ٹھکانے آئے تھے۔پہلے دن جب آفس سنبھالا پہلی میٹنگ پاور ٹیرف، ٹیکس سے متعلق کی۔13سے14دن ہمارا وقت انہی مسئلوں میں گزرا ہے۔ہماری فنانس، پاور ٹیم اس مسئلے کا مختصر مدتی حل تجویز کرنے جا رہی ہے۔انہوں نے انٹرویو کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ آئین نے پرائیویٹائزیشن سے متعلق راستہ بتایا ہے۔اداروں کی پرائیویٹائزیشن ایجنڈے میں شامل ہے۔چند دنوں میں پرائیویٹائزیشن کے ایجنڈے کو5سے10فیصد آگے بڑھایا ہے۔صوبوں کے ساتھ ایک ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔توانائی کی بچت کے لئے چند دنوں میں عملی اقدام نظر آئے گا۔مغلیہ انداز میں اعلان نہیں کرنا چاہتا کہ کل شام تک پی آئی اے کی نجکاری درکار ہے۔نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ خوشحال پاکستان کے تصور سے خوشحال افغانستان جڑا ہے۔ 9 مئی کو جو کچھ دنیا نے دیکھا ایسی ہلڑ بازی ناقابل برداشت ہے۔سائفر سے متعلق میں نے ابھی تک کوئی تحقیقات نہیں کیں۔انہوں نے کہا ہے کہ بھارت سے روایتی، تاریخی رشتہ بدقسمتی سے دوستانہ نہیں رہا۔کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب مسئلہ ہے۔کشمیر بنیادی مسئلہ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہمہ وقت جنگ چاہتے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد چھوڑے گئے جنگی آلات سے مسائل پیدا ہوئے۔ہمارے لئے اثرات شروع ہو گئے ہیں دیگر پر بھی پڑیں گے۔حالات ہماری پالیسی سے نہیں انخلاء کی ناقص پالیسی کے باعث خراب ہوئے۔افغانستان سے انخلاء ذمہ داری سے کیا جاتاتو معاملات بہتر ہوتے،افغانستان سے انخلاء غیر ذمہ دارانہ طریقے سے جلد بازی میں کیا گیا۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا ہے کہ بجلی کے معاملے پر جلدی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے، ہم ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جو بعد میں واپس لینا پڑے، رات کو دکانیں جلد بند کرنے سے متعلق فیصلہ صوبوں کو اعتماد میں لے کر کریں گے، فیصلے کا نفاذ جلد نظر آئے گا۔ انوار الحق کاکڑنے کہا کہ رات کو مارکیٹیں جلدی بند کرنے کے معاملے میں صرف اور صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ یہ ہے کہ صوبوں کے ساتھ ہم نے یکجا ہو کر ایک فیصلہ کرنا ہے۔ رات کو دکانیں جلد بند کرنے سے متعلق فیصلہ صوبوں کو اعتماد میں لے کر کریں گے، فیصلے کا نفاذ جلد نظر آئے گا۔ انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کوشش کر رہا ہوں کہ کوئی حتمی اعلان نہ کروں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پوری فنانس کی ٹیم ہماری پوری توانائی کی ٹیم قلیل المدت اور طویل المدتی حل تجویز کر یگی اور ایسے انداز میں کرنے جا رہی ہے کہ فیصلے ہمیں واپس نہ لینے پڑیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ نہیں کہا تھا کہ بجلی ایسا مسئلہ نہیں جس پر پہیہ جام ہڑتال کی جائے۔ ہمیں اس طبقے سے بہت ہمدردی ہے جس پر بجلی بلوں کا بہت بوجھ ہے۔ہمارے جو صحافی دوست ہیں یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے پہیہ جام ہڑتال کو مجھ سے منسوب کر کے پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔
30