تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
عشق کی امر بیل میںیہ اِس طرح جکڑے ہو تے ہیں کہ اِن کی رگوں میں خون کی جگہ عشق کے جراثیم ہی گردش کر تے نظر آتے ہیں عشق کی تکمیل اِن کا اوڑھنا بچھونا ہو تا ہے اِن کی سانسیں خیال یار سے چلتی ہیں میرے پاس بھی محبوب کا سوالی بن کر آیا شروع میں میں نے زیادہ توجہ نہ دی لیکن یہ محبوب کو پانے کے لیے ضدی تھا آرام شرافت سے آتا درخواست دے کر چلا جاتا مجھے چند ملاقاتوں میں ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہ شراب اور زنا کی سیاہ راتوں کا پرانا کھلاڑی ہے چند ملاقاتوں کے بعد جمال اب مجھے اچھا لگنے لگا تھا میں نے اب اِس سے دوستی بڑھائی تو جہ دینی شروع کی تو اِس نے بتایامیری عمر تیس سال سے میں پچھلے دس سالوں سے شراب زنا کاری میں مبتلا ہوں ان کے تمام اڈوں سے واقف ہوں جہاں پر شراب پانی کی طرح بہتی ہے بنت حواکو ڑیوں کے بھائو بکتی ہے میرا تعلق درمیانے طبقے سے ہے میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اکلوتا ہو نے کی وجہ سے لاڈ پیار ضد نے میری عادتیں بگاڑ دیں جوان ہو تے ہی چند بد کردار دوستوں کے گروپ کا حصہ بن گیا جو شراب جوائے زنا کی لت میں مبتلا تھے مجھے بھی انہوں نے یہ لت ڈال دی مجھے جوئے سے سروکار نہیں تھا لیکن جنسی بد کاری اور شراب میرے منہ کو لگ چکی تھی والد صاحب کی انار کلی میں دوکان تھی جو اچھا خاصا کما لیتی تھی خرچہ مجھے اچھا خاصا مل جاتا تھا اِس لیے میں ایک اڈے سے دوسرے اڈے پر بد کاری کے شب و روز گزارتا رہا میں چند دن ایک لڑکی کے ساتھ گزار کر دوسری لڑکی کی طرف لڑھک جاتا ہر گزرتے دن کے ساتھ شراب اور زنا کی دلدل میں دھنستا چلا گیا پھر شراب تھی اور جسم فروشی کے شہرمیں پھیلے ہوئے اڈے تھے اِسی آوارہ گردی میں اِس کی زندگی کا سب سے اہم کریکٹر سامنے آیا ملتان شہر کی لڑکی جس سے اِس کی ملاقات جسم فروشی کے اڈے پر ہو ئی اسے یہ دل دے بیٹھا لڑکی سے محبت کا اظہار کیا تو اس نے بھی جھوٹ موٹ کا محبت کا ڈرامہ رچانا شروع کر دیا محبت کی آگ بڑھی تو میں نے اسے کہا یہ گناہ کی زندگی چھوڑ دو میں تمہیں اپنا کر شریف پاکباز زندگی دینا چاہتا ہوں لڑکی پہلے تو ہاں میں ہاں ملاتی رہی پھر اچانک غائب ہو گئی میں نے بہت تلاش کی وہ نہیں ملی تو آپ کے پاس آیا مجھے خدا کے لیے میرا بچھڑا محبوب ملادیں ا سکی نیت صاف تھی میں نے وظائف دئیے تو چند دن بعد ہی لڑکی کا فون آگیا کہ مجھے اڈے کی مالکہ نے تمہارے خلاف کر کے دوسرے اڈے پر بھیج دیا تھا لیکن یہاں آکرتمہاری یاد نہیں بھولی میں تیارہوں شادی کے لیے آ اور مجھے لے جا جمال بہت خوش تھا کہ وہ مل گئی پھر اِس نے شادی کی اسے لے کر مڈل ایسٹ چلا گیاتوبہ کا نور اندر تک اجالا بکھیرتا گیا دونوں توبہ کر کے خوشگوار زندگی گزارنے لگے اِس کے دوبچے ہیں شادی کو چھ سال ہو گئے ہیں لیکن ہر سال ایک مشن کے طور پر پاکستان آتا ہے ایک یا دو جسم فروش لڑکیوں کو رات کے لیے بک کر تا ہے رات کو انہیں توبہ کی تلقین کر تا ہے مالی مدد کر تا ہے اگر کو ئی پڑھی لکھی ہو تو اسے مڈل ایسٹ جانے میں مدد کر تا ہے اِس کی زندگی کا مشن ہے جس طرح اس نے جسم فروشی کے اڈوں سے جان چھڑائی باقی لڑکیوں کو بھی گناہ کی دلدل سے نکالے وہ جب بھی پاکستان آتا ہے تومجھ سے ملنے ضرور آتا ہے تو بہ نے اس کے ظاہر باطن کی سیاہی دھو کر نور کا اجالا بھر دیا ہے جمال ون مین آرمی کی طرح اکیلا اِس اعلی مشن پر لگا ہوا ہے وہ جب بھی آتا ہے میں اسے سے خوب پیار کر تا ہوں کیونکہ زندہ لاشوں کے اِس شہر میں کبھی کبھار ہی جمال جیسا کوئی زندہ انسان نظر آتا ہے جو ہڑپہ موہنجو داڑوجیسے بنجر ویران شہر کے تاریک اندھیروں میں تنہا جگنو کی مانند اپنی روشنی بکھیر رہا ہے اسے دیکھ کر ہاتھ دعا کو اٹھ جاتے ہیں کہ کب ایسے ہزاروں جگنو بد کاری کی سیاہ رات میں اسلام اورپاکبازی کا نور بھر کر چاروں طرف ایمان کا اجالاپھیلا دیں ہزاروں جگنوں کی روشنی دھرتی کے اِس سیاہ گناہ کو دھو کر تو بہ کا نور پھیلا دیں گے ۔
44