اسلام آباد(بیوروچیف)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ / سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہاہے کہ میاں نوازشریف21اکتوبر بروز ہفتہ وطن واپس آ رہے ہیں اورانکے مقدمات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر پارٹی قیادت اور انکے وکلا کی ٹیم غور کررہی ہے۔فی الحال اس حوالے سے کچھ چیزیں زیر غور ہیں، جلد ہی اس حوالے سے حکمت عملی طے کر لی جائے گی اور اسکی روشنی میں ہی ان کے قانونی معاملات کو آگے بڑھایا جائیگا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو باآسانی حفاظتی ضمانت مل سکتی ہے، نوازشریف کی سزا بدستور قائم ہے، ریاست اگر سزا معطلی کی مخالفت نہ کرے تو نواز شریف کی ضمانت کے حوالے سے کیس مضبوط ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلا چوہدری افراسیاب خان او ر حافظ ایس اے رحمان نے کہاہے کہ اگر میاں نواز شریف لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہیں تو انکی واپسی سے قبل انکے وکلا حکومت کو فریق بنا کر لاہورہائی کورٹ سے انکی بحفاظت اسلام آباد ہائی کورٹ تک پہنچنے سے متعلق ضمانت قبل از گرفتاری (حفاظتی ضمانت) کروائینگے جوکہ ہر درخواست گزارکو باآسانی مل جاتی ہے، جس میں صرف اتنا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کیخلاف فلاں ایف آئی آر یا مقدمہ درج ہے ،جس میں متعلقہ عدالت سے ضمانت کیلئے رجوع کرنا چاہتا ہوں، حکومت کو روکا جائے کہ وہ میری متعلقہ عدالت سے ضمانت کی درخواست کے فیصلے تک مجھے گرفتار نہ کرے۔فاضل وکلا کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میاں نواز شریف کو sanity( ذہنی طور پر صحت مندی کی حالت میں) اشتہاری مجرم قرار دیکر انکا کیس داخل دفتر کرکے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے،وہ حفاظتی ضمانت کے اجرا کے بعد سب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے خود کوسرنڈر ( عدالت کے سامنے خود کوپیش کرنا)کر کے داخل دفتر کی گئی اپیلوںور سزا معطلی کے حکمنامہ کی بحالی کی استدعا کریں گے ،اپنی غیر حاضری کے موقف کے حق میں وہ جہاں مختلف جو ازپیش کرینگے، ان کی سپورٹ کیلئے انکی میڈیکل رپورٹیں پیش کی جائیں گی ، اسکے بعد یہ واضح طورپر یہ متعلقہ عدالتی بنچ کا اختیار ہے کہ وہ ان کی سزا کو معطل کرے یا درخواست کو خارج کرکے انہیں جیل بھجو ادے۔چوہدری افراسیاب خان ایڈوکیٹ نے مزید کہا کہ سردست میاں نواز شریف کی سزا بدستور قائم ہے ،جس میں وہ سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری ہیں، اسلئے ریاست انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ اس کا انحصار ریاست کی پالیسی پرہوگا ؟اگر ریاست کی جانب سے انکی سزا معطلی کی مخالفت نہیں کی جاتی ہے تو انکا کیس بہت مضبوط ہوگا ،دوسری صورت میں معاملہ صرف عدالتی بنچ کی صوابدید پر ہوگا۔انہوں نے واضح کیا کہ ٹرانزٹ یا حفاظتی ضمانت ہر اس ملزم کا حق ہوتا ہے جوخود کو قانون کے سامنے سرنگوں کرنے کا ارادہ ظاہر کرے ،فاضل وکیل نے ایک اور ٹیکنیکل نقطہ پر خیال آرائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 498 کے تحت ٹرانزٹ یا حفاظتی ضمانت کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے لیکن ایک سزا یافتہ مجرم اس کی بجائے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کسی بھی ہائی کورٹ میں درخواست دیکر حفاظتی ضمانت والا موقف پیش کرکرے داد رسی لے سکتا ہے۔
33