61

گیس مہنگی’ عوامی مشکلات میں مزید اضافہ (اداریہ)

نگران وزیرتوانائی محمد علی نے کہا ہے کہ 57 فی صد گھریلو صارفین کا ٹیرف نہیں بڑھایا، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا مشکل فیصلہ ہے پچھلے دس برسوں سے گیس کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے آر ایل این جی درآمد کر کے سسٹم کو چلا رہے ہیں ماضی کی نسبت اس سال گیس سے 573 ارب کی گیس چارج کرتے جبکہ اس کا ٹارگٹ 916 ارب تھا اگر یہ قیمتیں نہ بڑھیں تو اس سال بھی 400 ارب کا نقصان ہوتا 2013-14 میں گیس کی قیمت میں 18 ارب کا نقصان سالانہ تھا آج دس سال بعد 879 ارب کے نقصان پر کھڑے ہیں، شمال اور جنوبی میں نئی اور پرانی صنعتوں کو یکساں نرخ پر گیس ملے گی جنوب میں گیس کے ذخائر زیادہ ہیں اس لئے وہاں کوئی قیمت نہیں بڑھائی گئی یوریا کھاد صنعت کیلئے 45ارب روپے سبسڈی ہو گی،، نگران وفاقی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی ہے آج سے نافذ العمل ہو گئی ہے قیمتوں میں اضافہ اوگرا سمری کے مطابق کیا گیا ماہانہ 25 سے 90 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی لیکن پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیئے گئے ہیں نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمت میں 172 فی صد سے زائد اضافہ ہوا جس کے بعد ماہانہ 25′ 60′ 100′ 150′ 200′ 300 اور 400 مکعب میٹر گیس استعمال کرنیوالے صارفین کیلئے بالترتیب قیمت 200′ 300′ 400′ 600′ 800′ 1100 اور 2000 سے بڑھا کر 300′ 600′ 1000′ 1200′ 1600′ 3000′ 3500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دی گئی ہے جبکہ ماہانہ 4000 مکعب میٹر سے زائد استعمال پر قیمت 3100 سے بڑھا کر 4000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے تندوروں کیلئے 600 روپے اور پلانٹس کیلئے 1050 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو برقرار رکھی گئی ہے،، بتایا گیا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے سے گردشی قرضہ 2100 ارب روپے تک پہنچ گیا اسکی وجہ یہ ہے کہ بہت زیادہ منافع کمانے والے کاروبار کم قیمت پر قدرتی گیس استعمال کر رہے ہیں گیس کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے مارے عوام پر ایک اور بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے پہلے ہی عام آدمی بمشکل اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے اب نئی افتاد آن پڑی ہے عوام کو سانس نہیں لینے دیا جا رہا بجلی مہنگی کرنے کی بھی اطلاعات ہیں کہ صارفین پر 22 ارب 56 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جولائی سے شروع ہونے والے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی تقسیم کرنے والی سرکاری کمپنیاں یا ڈسکوز نے اضافی اخراجات کی وصولی کیلئے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں درخواست دائر کی ہے، ڈسکوز نے ٹیرف میں ایک روپے 30 پیسے فی یونٹ اضافے’ کپیسٹی پے منٹ کی مد میں 12 ارب 12کروڑ روپے وصول کرنے جبکہ مرمتی اور آپریشن کی مد میں 4 ارب 61کروڑ روپے اضافی وصول کرنے کی درخواست کی ہے درخواست منظور ہونے کی صورت میں 6ارب 61 کروڑ روپے جبکہ بجلی سسٹم کے استعمال کی مد میں 10ارب 24کروڑ روپے وصول کئے جائیں گے نیپرا ڈسکوز کی درخواست پر 14نومبر کو سماعت کے بعد حتمی فیصلہ کرے گی،، ملک میں توانائی کی قلت بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے غریب عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر اس پر گیس اور بجلی کمپنیوں کے خسارہ کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے نگران وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں سے گیس کے ذخائر میں کمی آ رہی ہے گیس کمپنیاں خسارے میں جا رہی ہیں لہٰذا گیس کے نرخوں میں اضافہ ناگزیر ہے اگر نرخوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو 400 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے نگران وفاقی وزیر توانائی کی بات سے اتفاق کرتے ہیں مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی حکمران نے گیس اور بجلی کمپنیوں کے خسارے کی اصل وجہ پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی حالانکہ حکمرانوں کو سب معلوم ہے کہ گیس’ بجلی’ پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیوں کرنا پڑتا ہے ملک کے چند ہزار خاندان (اشرافیہ) جو مراعات یافتہ ہیں اگر ان کو گیس’ بجلی’ پٹرول مفت فراہم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے اور وہ جتنی توانائی صرف کریں اس کا بل ادا کریں تو نہ بجلی کمپنیاں خسارے میں چلیں نہ پٹرول کے نرخ بڑھانے پڑیں نہ ہی گیس کے نرخوں میں اضافہ کی ضرورت محسوس ہو، گیس اور بجلی کے محکموں کے ملازمین بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں تو ان کو گیس بجلی مفت کیوں دی جاتی ہے؟ کئی بار یہ سنا گیا کہ مراعات یافتہ افراد کو مفت بجلی’ گیس’ پٹرول کی فراہمی بند کر دی جائے گی مگر نجانے کون سی نادید طاقت اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتی اور حکومت ان مراعات یافتہ اشرافیہ کی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے تمام تر بوجھ عام آدمی پر ڈال دیتی ہے ایسا کب تک چلے گا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ملک کے تمام لوگ یہ مطالبہ کرتے نظر آئیں گے کہ مفت بجلی’ مفت گیس’ مفت پٹرول کی فراہمی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں