نگران وفاقی حکومت کی ملکی معیشت کی بہتری کیلئے کوششیں بتدریج رنگ لا رہی ہیں آئی ایم ایف او رپاکستان کے درمیان رواں مالی سال کے آغاز میں طے پانے والے تین ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے اگلے مرحلے کیلئے مذاکرات ہونے جا رہے ہیں وفاقی وزارت خزانہ نے قومی معیشت کی خاصی امید افزاء تصویر کشی ہے جس کے مطابق افراط زر کے دبائو میں کمی کی وجہ سے مجموعی معاشی سرگرمیاں موجودہ مالی سال کے باقی 2ماہ کے دوران مثبت رہیں گی اشیائے صرف کی قیمتوں کے اشاریے پر مبنی ماہانہ افراط زر ستمبر میں 31.4 فی صد سے کم ہو کر اکتوبر 2023ء میں تقریباً 27 تا 29فیصد رہا وزارت خزانہ نے بتایا کہ بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے حکومت عالمی بنک’ ایشیائی بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک سے 6.3 ارب ڈالر کی رعائتی معاونت حاصل کرنے کیلئے کام کر رہی ہے آئی ایم ایف کے 3ارب ڈالر کے علاوہ تقریباً 10ارب ڈالر کی دوطرفہ امداد پہلے ہی منظور ہو چکی ہے مزید برآں حکومت کو توقع ہے کہ ترسیلات زر میں بہتری آئے گی کیونکہ انٹربنک اور اوپن مارکیٹ میں فرق ایک فی صد سے کم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے حوالہ ہنڈی کے بجائے بیرون ملک مقیم پاکستانی بینکوں کے ذریعے رقوم بھیج رہے ہیں قومی معیشت کی یہ تصویر اگرچہ خوش آئند ہے تاہم ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کے باعث ستمبر کے مہینے سے روپے کی قدر میں مسلسل بہتری اور ڈالر سمیت تمام بیرونی کرنسیوں کی قدر میں کمی کا جو رجحان جاری تھا جس کی بناء پر کہا جا رہا تھا کہ ڈالر کی قیمت جلد ہی 250 روپے تک آ جائے گی پچھلے چند دنوں میں اس کا تبدیل ہو جانا ایسا معاملہ ہے ملک کے موجودہ معاشی حکمت کاروں کو جس کا فوری تدارک کرنا چاہیے ورنہ روپے کی گراوٹ طویل مدت کے بعد شروع ہونے والے مہنگائی اور عوام کی مشکلات میں کمی کر کے رجحان کو ایک بار الٹ دینے کا سبب بنے گا اس وقت ملک کو سب سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے سب سیاستدان مل بیٹھ کر فیصلے کریں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اسی وجہ سے وہ خود کو نمایاں رکھنے کیلئے کسی کے ساتھ مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جو المیہ سے کم نہیں ماضی میں سیاستدانوں کی کارکردگی اور نااہلی سب کے سامنے ہے جب بھی نااہلی کی بنیاد پر انہیں ہٹایا جاتا ہے تو وہ خود کو پارسا ثابت کرنے کیلئے اداروں پر الزام تراشیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں عوام کو جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے بہلایا جاتا ہے اور خود کو لیڈر ثابت کرنے کیلئے یہ سیاسی لوگ ہر حد تک جانے کیلئے تیار رہتے ہیں ایک بار پھر سیاستدانوں کو خود کو اپنی سمت درست راہ پر گامزن کرنے کا موقع مل رہا ہے عام انتخابات قریب ہیں ہر سیاستدان کو اپنا طرز سیاست تبدیل کرنا ہو گا سیاستدانوں کی ناقص کارکردگی اور نااہلی کی وجہ سے ہی جو ادارے کبھی منافع بخش ہوا کرتے تھے آج اربوں کے مقروض ہیں تمام سیاستدان 1999ء سے 2008ء تک کے دور کے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں جب پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں’ آئی ایم ایف ورلڈ بنک ایشیائی ترقیاتی بنک کو قبل ازوقت ادائیگی کر کے قرض سے نجات حاصل کی لیکن جب جمہوریت کے نام پر ڈاکو کریسی رائج ہوئی تو ملک کی مالی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی گزشتہ 15برسوں میں ملک’ اداروں’ عوام کی حالت سب کے سامنے ہے متوسط طبقے کا وجود ختم ہو چکا ہے اعداد وشمار کے مطابق چند ماہ میں ڈیڑھ کروڑ افراد مزید خط غربت میں چلے گئے اگر سیاستدانوں کا موجودہ طرز عمل جاری رہا تو پھر ملک کا اﷲ ہی حافظ ہو گا پی ڈی ایم کی حکومت میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا مختلف بحرانوں نے جنم لیا معیشت کمزور ہوتی گئی مگر گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ناکافی اقدامات سے صورتحال بگڑ گئی اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد قائم کر کے پی ٹی آئی کی حکومت پر عدم اعتماد کیا اور تحریک انصاف کی حکومت کا اقتدار ختم ہو گیا اتحادی حکومت بھی ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالنے میں ناکام رہی اس وقت کے پرائم منسٹر شہباز شریف نے سیاسی جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کو میثاق معیشت کی دعوت دی مگر ان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا گیا ملک کو قرضوں نے بُری طرح جکڑ رکھا ہے عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے بجلی گیس پٹرول مہنگے ہیں صنعتوں کی حالت قابل رحم ہو چکی ہے بے روزگاری نے ملک بھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں آئی ایم ایف اپنی مرضی کے فیصلے پاکستان پر تھوپ رہا ہے ٹیکس بڑھ رہے ہیں عوام سراپا احتجاج ہیں مگر ان کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ الیکشن سر پر ہیں نگران کابینہ الیکشن کرا کے رخصت ہو جائے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت برسراقتدار آئے وہ خلوص دل سے ملک کو سب سے پہلے معاشی بھنور سے نکالنے کیلئے کوششیں کرے کیونکہ ملکی معیشت مضبوط ہو گی تو ملک کا نظام چلنا آسان ہو گا بیرونی قرضوں سے نجات ناگزیر ہے۔
57