تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
موجودہ ہو شربا مہنگائی اور مادیت پرستی کے طلسم ‘مشینی سائنسی ترقی نے حضرت انسان کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں دھرتی پر موجود ہر انسان مادیت پرستی کی کبھی نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑے چلا جارہا ہے یا پھر ادھر اُدھر ہر چوکھٹ پر ماتھا رگڑتا نظر آتا ہے جہاں پر مادی وسائل کو بڑھانے اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی تھوڑی سی بھی امید ہو اِسی شارٹ کٹ کے لیے بزرگوں درویشوں وظیفوں چلوں کا بھی سہارا لیتا ہے ہر بزرگ کے پاس جا کر اسم اعظم مانگتا ہے ایسا وظیفہ چلہ جس کے کرنے سے رات سوئے صبح جاگے تو سارے خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہوں یا منٹوں میں سارے مسائل حل ہو جائیں یعنی پتلہ خاکی وظائف الفاظ کی تکرار پر دھیان دے رہا ہے اگر بھائی الفاظ کی جادوگری سے ملتا ہو تو پھر گونگے فالج زدہ اور ان پڑھ لوگ کہاں جائیں لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ دعا الفاظ کی جادوگری نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے خدا سے دعا مانگنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کوئی فارسی ادب کا رومی سعدی اقبال ہو یا عربی کا علم و حافظ ہو انگریزی ادب کا شیکسپیئر رملٹن ہو اردو ادب کا غالب ابوالکلام میر تقی میر فیض احمد فیض اقبال بلکہ دعا قبول کر نے کی کیفیت تو کسی نا بلد کی بھی ہو سکتی گونگا بھی اپنے باطنی اضطراب سے رب کریم کو اپنی طرف متوجہ کو سکتا ہے ہکلانے والا شخص بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے ادھورے الفاظ سے اپنے دل کی باتیں خواہشیں خدا کے حضور بیان کر سکتا ہے عام شخص بھی اپنا مدعا سادگی سے بیان کر سکتا ہے کیونکہ رب کریم شفقت محبت محض غزالی ابن عربی رازی کے لیے نہیں اور نہ ہی حسن بصری جنید و بایزید معین الدین چشتی کا اجارہ ہے یہ لوگ یقینا خداوند کے مقبول بندے اور الٰہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں لیکن اگر رب تعالیٰ صرف الٰہی رنگ میں رنگے لوگوں کی سنے گا ہم جیسے سیاہ کار لوگ کہاں جائیں گے جبکہ مریض کو سب سے زیادہ حکیم کی ضرورت ہوتی ہے اور حکیم کابھی سارا ہنر مریض کے لیے ہوتا ہے سخی کا دروازہ امیروں کے لیے نہیں حاجت مندوں کے لیے کھلتا ہے جس طرح ہر ماں جانتی ہے اُس کے بچے کی پہلی آخری پناہ اُس کی گود اور سینہ ہے اور واحد سہارا اُس کی بانہیں ہیں لہذا ماں نے خود کو بچے کے لیے وقف کر دیا ہوتا ہے اِسی طرح بچہ بھی دائیں بائیں نہیں دیکھتا بلکہ ماں کی گود میںہی آکر گرتا ہے اِسی طرح جب بندے کو یقین ہو جائے کہ کرہ ارضی پر رب کے علاوہ کوئی اور قابل بھروسہ نہیں ہے تو پھر خدا کرشمے دکھا دیتا ہے جس طرح ایک بچہ جب سکول جاتا ہے تو گرمی راستے کی مسافت دیکھ کر اپنے باپ سے سائیکل یا موٹر سائیکل کی فرمائش کرتا ہے تو بچہ باپ کے وسائل نہیں دیکھتا بس فرمائش کر دیتا ہے شروع میں تو باپ نرمی سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ ابھی گزارہ کرو ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں جب ہونگے تو ضرور لے دوں گا لیکن بچے پر باپ کی بات کا بلکل بھی اثر نہیں ہو تا وہ پھر سائیکل کی ڈیمانڈ کر دیتا ہے تو باپ نرمی کی بجائے تھوڑی سختی سے ڈانٹ کر کہتا ہے جان پدر میری مجبوری کو سمجھو میرے پاس پیسے نہیں ہیں مجھے مزید تنگ نہ کرو لیکن بچے پر باپ کی ڈانٹ کا اثر نہیں ہو تا پھر سائیکل کا تقاضہ کرتا ہے تو باپ غصے سے کہتا ہے جب میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ میرے پاس پیسے نہیں اب میں تمہاری سائیکل کے لیے کسی کے گھر چوری کروں یا بنک جا کر ڈکیتی کروں یا سڑک پر کھڑے ہو کر تمہارے لیے بھیک مانگوں تو بیٹا پکار اٹھتا ہے ابا جان مجھے پتہ ہے آپ کے لیے سائیکل لینا مشکل اور میری فرمائش آپ کے لیے دل آزاری کا باعث بن رہی ہے لیکن آپ ابا جان میری مجبوری کا بھی خیال کریں مجھے جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو گی میں آپ سے ہی مانگوں گا کسی دوسرے باپ یا در پر نہیں جا سکتا میری فرمائش تو ابا جان آپ نے ہی پوری کرنی ہے بیٹے کے الفاظ سن کا باپ کا دل سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر آنے کی کو شش کر تا ہے وہ ادھار پکڑ کر بیٹے کو سائیکل لے دیتا ہے یہی حال بندے کا ہے جب وہ اپنی عاجزی نالہ نیم شبی تہجد کے وقت جاگ کر آرام دہ بستر چھوڑ کر اپنی بے بسی بندگی اشک ریزی اور سپردگی سے رب کے پیمانہ رحمت کو چھلکا دیتا ہے اور وہ بندے کا خالی دامن خوشبوئوں سے بھر دیتا ہے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی یہ دعا مانگی اور اگلے لمحے قبول ہو ئی الفاظ دعا جب تک کیفیت نہ ہو لذت کے سانچے میں نہ ڈھلیں تمنا کے پیکر میں نہ ڈھلے تو وہ دعا پھر دعا تو نہ ہوئی بے رنگ بے کیف بندہ جب اپنے جسم کو کشکول میں ڈھال لے دعا والے ہاتھ بنائے سر سے پائوں تک کشکول بنا لیتا ہے تو پھر آنکھ سے گرا ایک آنسو خوف کی جسم پر طاری ہلکی سی جھرجھری معافی کا قطرہ اشک اس کی سفارش بنا کر اُس کی ہر دعا قبول کرا دیتا ہے دعا لفظوں کی تکرار نہیں بندگی کے اظہار کا نام ہے جب انسان کا جسم کشکول اور آنکھوں میں آنسو آجائیں تو پھر خدا تعالی عرش عظیم سے اتر کر پہلے آسمان پر آجاتا ہے اور بندے کی دعا سنتا ہے پھر مولائے کائنات حضرت علی کے الفاظ سہارا بنتے ہیں اے اللہ اُس شخص کو بخش دے جس کے پاس دعا کے علاوہ کچھ سر مایا نہیں ہے جب بندہ خدا کے لیے سارے رشتے توڑ کر آتا ہے تو خدا اُس کا دامن خوشبوئوں سے بھر دیتا ہے یہاں پر شیخ سعدی کی حقایت یاد آرہی ہے اولیاء اللہ کو دیکھ کر کسی شخص کو شوق ہوا وہ بھی خدا کا برگزیدہ بندہ بن جائے ڈنڈا جائے نماز پکڑ کر پہاڑ چڑھ کر غار میں بیٹھ کر وظائف چلے عبادات کرنے لگا چند دن کی عبادے کے بعد ہی فتوحات کا انتظار کر نے لگا کہ میں خدا کا نیک بزرگ بن گیا ہوں اب ہجوم میرا طواف کرے گا اب میری بزرگی کرا مات کے چرچے چاروں طرف ہونگے چند دن گزر گئے اُسکے پاس جب کوئی نہ آیا تو اٹھا اور آبادی کی طرف چل پڑا کہ لوگ میری بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ابھی آبادی میں داخل ہی ہو ا تھا کہ ایک کتا پیچھے پڑگیا یہ ڈر کر پیچھے سرکتا جارہا تھا کتا حملہ آور ہو تا جا رہا تھا یہ پریشان کہ میں تو خدا کا نیک بزرگ بن چکا ہوں یہ کتا میری بزرگی کا قائل کیوں نہیں ہوا تنگ آکر کتے سے بولا میں نے تمہار کیا بگاڑا ہے جو تم میرے پیچھے پڑ گئے ہو مجھ پر مسلسل حملہ آور ہو رہے ہو قدرت نے کتے کو گو یائی عطا کی اور وہ بولا اوے کم ظرف تم تو خدا کے در پر اُس کا نیک بندہ بننے گئے تھے چار دن میں ہی جی بھر گیا واپس آگئے ہو آگئے ہو غیر اللہ کے در پر مانگنے مجھے دیکھو کئی سالوں سے مالک کے در پر پڑا ہوں وہ دے دے تو کھا لیتا ہوں ورنہ صبر کرتا ہوں نہ دے تو در چھوڑ کر نہیں جاتا فاقے کا ٹتا ہوں لیکن مالک کا در چھوڑ کر نہیں جاتا تم چھوڑ آئے ہو ۔
58