سابق وزیراعظم نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں بڑا ریلیف دیتے ہوئے گیارہ سال قید کی سزا کالعدم قرار دے کر بری کر دیا، دوسری جانب نیب نے فلیگ شپ میں بھی نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لے لی عدالت نے لکھا پراسکیوشن کے موقف کو ثابت کرنے کیلئے کوئی ایک ڈاکیومنٹ موجود نہیں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کئے گئے تھے،، اسلام آباد ہائیکورٹ سے نواز شریف کی بریت کا فیصلہ نواز شریف اور ان کی فیملی کیلئے بڑا ریلیف ہے، ملک میں انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن آنے کے بعد الیکشن شیڈول کا بھی اعلان کر دیا جائے گا ملک میں انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی انداز میں یا کسی ایشو کو سامنے رکھ کر عوام میں نکلی ہوئی ہیں ملک کی عدالتوں میں سیاسی شخصیات کے اہم کیسز کی سماعت بھی ہو رہی ہے جن کے سیاسی اثرات بھی ہیں پیپلزپارٹی اپنا یوم تاسیس منا رہی ہے نواز شریف کو عدالتی ریلیف ملنے سے ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں مزید تیزی کا امکان بڑھ گیا ہے نواز شریف عدالتی ریلیف ملنے کے منتظر تھے ایون فیلڈ ریفرنس اور فلیگ شپ ریفرنس کیسز کالعدم ہونے کے بعد اب نواز شریف آزاد ہیں اور اپنی پوری توجہ سیاسی سرگرمیوں پر مبذول کر سکیں گے نواز شریف اور ان کے خاندان کیلئے ابتلاکے اس دور کا خاتمہ شروع ہو گیا ہے جس کی ابتداء پانامہ لیکس سے شروع ہوئی تھی اسلام آباد سے ریلیف ملنے کے بعد بلاشبہ نواز شریف کو بھرپور انتخابی مہم چلانے کا موقع ملے گا اس طرح وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں میں جانے والی نشستوں کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے اپنی بھرپور سیاسی مہم چلا سکتے ہیں آٹھ فروری 2024ء کو عام انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں مگر کچھ ابہام ووسو سے بھی شرپسند عناصر کی طرف سے پھیلائے جا رہے ہیں کہ انتخابات التواء کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس کا اعلان بھی الیکشن کمیشن سے کروایا جائے گا اگر ایسا ہوا تو یہ سیاسی جماعتوں میں بے چینی کا سبب بنے گا بلاول بھٹو کئی سیاسی اجتماعات میں کہہ چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے سابق صدر آصف علی زرداری لاہور میں سیاسی ڈیرے لگا کر پنجاب کو فتح کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں زرداری اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو وزیراعظم کی حیثیت سے دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور وہ اسی لئے پنجاب فتح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسلام آباد میں حکومت قائم کرنے والی پارٹی کی ریت ہے کہ وہ لاہور سے ضرور کلین سویپ کرتی ہے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ لاہور کو ہی سمجھا جاتا ہے اور لاہور سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں (ن) لیگ کی تنظیموں کو مضبوط بنانے کیلئے حمزہ شہباز شریف کی کاوشیں لائق تحسین ہیں اب جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف وطن واپس پہنچ کر عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں ان کو عدالتوں سے انصاف بھی مل رہا ہے لہٰذا اب (ن) لیگ میں ایک بار پھر جان پڑ گئی ہے کیونکہ نواز شریف کا اصل امتحان عدالتوں سے سرخرو ہونا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ سے بڑا ریلیف ملنے کے بعد اب ان کیلئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا آسان ہو گیا ہے لہٰذا اب (ن) لیگ سے دوریاں اختیار کرنے والے سیاسی لوگ (ن) لیگ میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں نواز شریف کو ایک بار پھر (ن) لیگ کی قیادت مل سکتی ہے اگر ان کو اقتدار مل گیا تو ان کی اپنی سابقہ غلطیوں کو دہرانے سے پرہیز کرنا ہو گا اور جو ایجنڈہ وہ لائے ہیں ملکی ترقی وخوشحالی اور معاشی استحکام کا اس پر پوری سنجیدگی سے عملدرآمد کرانا ہو گا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں نہیں آنی چاہئیں بصورت دیگر دوبارہ اقتدار ایک خواب بن جائیگا۔
63