66

آئندہ حکومت کیلئے چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا (اداریہ)

آئندہ ماہ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے صاف شفاف انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں سکیورٹی ادارے اور انتظامیہ ذمہ داریاں نبھانے کیلئے تیار ہیں نگران وفاقی وصوبائی حکومتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور معاونت کا عزم کر رکھا ہے اور انتخابی مراحل طے کئے جا رہے ہیں گزشتہ روز انتخابی عمل کا اہم مرحلہ بھی مکمل ہو چکا انتخابی نشان الاٹ ہو چکے ہیں اور اگلے ماہ کی آٹھ تاریخ کو عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں الیکشن میں تمام سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں مسلم لیگ (ن)’ پیپلزپارٹی’ جے یو آئی استحکام پاکستان پارٹی ایم کیو ایم’ فنکشنل مسلم لیگ’ جی ڈی اے’ اے این پی’ بی این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے جا چکے ہیں انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ دو ہفتے سے الیکشن مہم چلا رہے ہیں جبکہ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف 17جنوری سے ٹوبہ سے الیکشن مہم شروع کر رہے ہیں مولانا فضل الرحمان کی جماعت بھی ملک بھر میں انتخابی مہم شروع کر چکی ہے بڑی مشکل سے یہ دن آیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں گزشتہ حکومت کے دور میں انتقام کی سیاست نے ایسا رنگ جمایا کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا سیاسی مفادات کی جنگ نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا معاشی طور پر ملک کمزور ہوا جس کے نتیجہ میں بحرانوں نے جنم لینا شروع کر دیا اس وقت ملک جن مسائل سے گزر رہا ہے اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد جو نئی حکومت قائم ہو گی اس کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہو گا انتخابات سے قبل روزانہ کی بنیادوںپر بنیاد بنا کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر کا کھیل جاری ہے حالات کی سنگینی کا کسی کو احساس نہیں پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو بھی کھیل بنا لیا گیا ہے دنیا کے کسی ملک میں انتخابات کو اتنا مسئلہ نہیں بنایا جاتا جیسا طرز عمل پاکستان میں بنایا جاتا ہے سیاسی مہم جوئی کا کھیل سیاسی’ جمہوری اور ریاستی نظام کو کیسے خرابی کی طرف دھکیل کر ہماری ترقی کے عمل کو آگے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جا رہا ہے حالات ریاستی بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں اس لئے بحران کا حل اجتماعی سطح کی دانش سے نکالنا ہو گا مسائل کا حل ٹکرائو یا سیاسی دشمنی پر مبنی حکمت عملی سے ممکن نہیں نہ ہی یہ جنگ سیاسی مخالفین کو ختم کرنے یا ان کو دیوار سے لگانے سے جیتی جا سکے گی پاکستان کو سال رواں کیلئے معاشی محاذ پر جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سب سے اہم سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں تباہ شدہ معیشت کی بحالی ہے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود انحصاری کی منزل کی درست سمت کا تعین کرنا ہو گا دیگر چیلنجوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا’ مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند سطح’ اندرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشرباء اضافہ’ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران’ معیشت کی سست روی’ بے روزگاری’ پیداوار میں جمود’ بجلی گیس کے شعبوں کی بدحالی ان تمام مسائل سے نئی حکومت کیلئے نبردآزما اس کے سیاسی مستقبل کو بھی دائو پر لگا سکتا ہے،، عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی وصوبائی حکومتوں کو سبز انقلاب کیلئے ایک قومی منصوبہ تیار کرنا ہو گا نوجوان طبقہ کی مایوسی کو ختم کرنا ہو گا بدامنی’ دہشت گردی کے عفریت کو انجام تک پہنچانا ہو گا اداروں میں اصلاحات لانی ہونگی، ملک کی معیشت کو پٹڑی پر ڈالنے کیلئے برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا ملک کی ترقی کیلئے قانون سازی کرنا ہو گی المختصر نئی حکومت کے سامنے مسائل پہاڑ کی مانند ہوں گے جن کو حل کرنا اس کی اولین ترجیح ہونا چاہیے اگر نئی حکومت ان مسائل سے نمٹ لے گی تو پھر ملک وقوم کی ترقی کی منازل طے کرنا آسان ہو سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں