126

الیکشن میں دھاندلی کا شور کوئی معنی نہیں رکھتا (اداریہ)

آٹھ فروری 2024ء کو عام انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوئے اس سلسلے میں کسی قسم کی تنقید کرنے والے اپنی شکست کا رونا رونے کے بجائے دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں حالانکہ اگر دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اتنی بڑی تعداد میں قومی اسمبلی کے ممبر نہیں بن سکتے تھے نہ ہی خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہو سکتا تھا پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ملک کی بڑی جماعت (ن) لیگ کو ٹف ٹائم دیا اور ایسے امیدواروں کو شکست دی جن کی کامیابی یقینی تھی پی ٹی آئی کو انتخابی نشان بلا نہیں الاٹ ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو مختلف قسم کے انتخابی نشان الاٹ ہوئے دیکھا جائے تو نئے انتخابی نشان والے امیدواروں کی کامیابی ناممکن نظر آ رہی تھی مگر یوتھ کی بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کے غیر معروف امیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب بنایا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ الیکشن آزاد منصفانہ اور شفاف ہوئے لہٰذا الیکشن میں دھاندلی کا شور کوئی معنی نہیں رکھتا جو نہیں جیتے وہ شور مچا رہے ہیں یہ طریقہ کار درست نہیں کہ جہاں آپ اکثریت سے جیتے ہیں وہاں الیکشن ٹھیک ہوا ہے جہاں آپ کو شکست ہوئی وہاں کے نتائج آپ تسلیم کرنے کو تیار نہیں بہتر یہ ہو گا کہ الیکشن نتائج کو تسلیم کر کے تشکیل پانے والی حکومتوں سے تعاون کیا جائے اور ملک کے مسائل کے حل اور معاشی بدحالی کے خاتمے کیلئے کام کیا جائے الیکشن نتائج پر جس کو اعتراض سے وہ الیکشن ٹربیونل’ ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ کا پلیٹ فارم استعمال کرے دھاندلی کا شور اب ختم ہو جانا چاہیے ہارنے والوں کو کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا تبھی ملک میں سیاسی ماحول درست ہو سکے گا جب تک سیاستدان موجودہ طرز عمل ترک نہیں کریں گے اس وقت تک نظام مستحکم نہیں ہو سکے گا نئے منتخب ہونے والے اراکین نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے اور انہیں چاہیے کہ اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن عزیز پاکستان اور صوبوں کے مفادات کو اولین ترجیح رکھ کر کام کریں ملک کے مسائل ہم سب نے ملکر حل کرنے ہیں نہ کہ باہر سے آکر کوئی اور ہمارے ملک کے مسائل حل کرے گا نہ ہی ہمارے ملک کے اندرونی سیاسی مسائل معاملات میں مداخلت کا کسی اور ملک کو کوئی اختیار ہے نگران حکومت نے نئی حکومت کو اقتدار منتقل کر دیا ہے اسی لئے نومنتخب اراکین کی ذمہ داری ہے کہ ملک کو سنبھالیں اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجز’ لاقانونیت اور اندرونی وبیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ ملک مختصر مدت میں مسائل کی دلدل سے نکل سکے نئی حکومت کیلئے آئندہ چھ ماہ سخت ہوں گے کہ آئی ایم ایف سے حاصل کئے گئے قرضوں کی ادائیگی اور نئی کولیشن حکومت کی مبینہ طور پر مزید آٹھ ارب ڈالرز کے قرضے کیلئے درخواست اس امر کا ثبوت ہے کہ ملکی مالی بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت کو آنے والے دنوں میں مزید قرضے حاصل کرنے ہوں گے یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ نئی حکومت کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کے راہنما سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ انکی جماعت پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی وخوشحالی کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی دو اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آپس میں ملاقات اور ملک کے اقتصادی استحکام کے سلسلے میں بات کا سلسلہ چند جماعتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کوشریک کیا جانا چاہیے سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات اپنی جگہ رہیں لیکن ملک اور عوام کی بہتری کیلئے سب کو مل کر چلنا چاہیے یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام میں اقتصادی استحکام کی بنیاد بن سکتا ہے اور الیکشن کے بعد نئی حکومتیں بننے کے بعد شکست خوردہ سیاستدانوں کو انتخابی نتائج تسلیم کر کے آئندہ کے لائحہ عمل پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے، دھاندلی کے شور اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں