21

PTI کا طرز سیاست ملکی مفاد میں نہیں (اداریہ)

پی ٹی آئی کا طرز سیاست ہرگز ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے یہ جماعت سمجھتی ہے کہ صرف اس کا وجود ہی ملک کے لیے ناگزیر ہے اور وہ جب چاہے ملکی اداروں اور سیاسی قیادتوں سمیت حکومت کو لتاڑے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہ ہو جس کا ایک بڑا ثبوت اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا حالیہ جلسہ ہے جس میں نہ صرف قوانین کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ معاہدے بھی توڑے گئے جلسے میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا سب سے افسوسناک اور خطرناک پہلو اس جماعت کے مقررین کی زبان تھی جو پاکستان کے دفاعی اداروں’ سیاسی قیادت’ میڈیا اور دیگر شخصیات بارے استعمال کی گئی’ ہمارے خیال میں تو پی ٹی آئی سیاسی جماعت کم اور زبان دراز زیادہ ہے سیاسی جتھوں اور جتھوں میں فرق ہوتا ہے سیاسی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے کیلئے بات چیت کا راستہ اختیار کرتی ہیں لیکن پی ٹی آئی دھمکیوں پر اتر آئی ہے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے کا مقصد بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالنا ہے تو پھر عدالتیں بند کر دی جائیں سینکڑوں’ ہزاروں لوگ جمع کر کے اگر کوئی گروہ عدالت یا جیل پر چڑھائی کرے اور کسی بھی قیدی کو چھڑانے کیلئے دبائو ڈالے تو کیا قیدی کو رہا کر دیا جائے، ایسا نہیں ہو سکتا بدقسمتی سے کے پی کے وزیراعلیٰ نے اسلام آباد کے جلسے میں جس انداز میں گفتگو کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے تحت لوگوں کے جذبات بھڑکا رہے ہیں وہ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو سب کہیں گے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم نے تو لوگوں سے نہیں کہا کہ وہ ہتھیار اُٹھائیں’ میڈیا پر آپ چڑھ دوڑیں’ اداروں کو دھمکیاں دیں’ سیاسی جماعتوں کا نہ تو یہ انداز ہے نہ ہی جمہوری طریقہ کار ہے جمہوریت تو پرامن رہنے کا پیغام دیتی ہے’ پی ٹی آئی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں یہ خود ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے لیے کافی ہے اگر پی ٹی آئی کی قیادت اپنے دور حکومت میں سمجھ داری سے کام لیتی تو یقینا ملک کے مسائل حل ہو چکے ہوتے اور ان کی حکومت بھی اس طرح ختم نہ ہوتی جیسے ہوئی تھی، اس جماعت نے بیرونی ملکوں سے بھی تعلقات خراب کئے اور ساتھ ہی ملک میں نفرت بھی پھیلائی اپنی ہر ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہوئے خود مظلوم بننے کی کوشش کی جو آج بھی جاری ہے پی ٹی آئی عوامی حمایت کا درست استعمال کرنے میں کسی بھی وقت کامیاب نہیں ہو سکی، وہ طاقت جسے ملک کی بہتری اور تعمیر کے لیے استعمال ہونا تھا اسے صرف اور صرف جلائو گھیرائو اور طوفان بدتمیزی کے لیے استعمال کرکے ملک میں نفرت کو ہوا دی، معصوم وسادہ لوگوں میں احساس محرومی پیدا کر کے انہیں ملک کے خلاف بھڑکایا گیا یہ کیسا طرز سیاست ہے؟ آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں ہونیو الے جلسے میں پی ٹی آئی قیادت نے جو تقاریر کیں ہیں کیا وہ جمہوریت کا روشن باب ہیں ایک صوبے کا وزیراعلیٰ وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرے اور سب کو بُرا بھلا کہے یہ کیسا جمہوری رویہ ہے اسے سیاسی سرگرمی کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا، گنڈاپور نے صحافیوں کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ تم لوگ جو ہمارے خلاف کمپین کر رہے ہو تم سمجھتے ہو کہ ہمیں بلیک میل کر لوگے انہوں نے خاتون صحافیوں کیلئے بھی نازیبا زبان استعمال کی جو افسوسناک ہے! علی امین گنڈاپور کو اپنے صوبے میں امن وامان قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے پی ٹی آئی اختلافات کا شکار ہے تنظیم نام کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی ان حالات میں پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر دھمکیوں کا راستہ اختیار کر رہی ہے جو اس کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، عوام میں مقبولیت رکھنے والی اس جماعت کی ڈور اس وقت غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھوں میں ہے جو صرف جذباتی انداز میں سوچے سمجھے بغیر بولتے چلے جاتے ہیں یہ ہاتھوں سے گرہ باندھ کر دانتوں سے کھولنے والی بات ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی مرکزی قیادت جمہوری راستہ اختیار کرے اور مفاہمت والی سیاست اختیار کرے ورنہ ان کے عروج کو زوال بھی آ سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں