عصر حاضر میں سوشل میڈیا نے میڈیا کو مکمل طور پر سوشل کردیا ہے۔ اب تو یہ ہر شخص کا موضوع سخن ہے اور ہر کوئی کھل کھلا کر اس موضوع پر بات کررہا ہے بلکہ باتیں بنا رہا ہے اس سے بڑھ کر بات کا بتنگڑ بنا رہا ہے۔ کبھی کبھی تو بلکہ اکثر اوقات رائی پہاڑ اور ذرہ زر بن جاتا ہے۔ اور میرے جیسے نیم خواندہ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ سیدھا تو سب کو ہی الٹا لگ رہاہوتا ہے۔ اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ کوتوال ہکا بکا رہ گیا ہے اور ڈاکو چپکے سے وڈیو ریکارڈ کرواتا ہے بڑھکیں ہی بڑھکیں اور خوب بھبکیاں۔ گیدڑ بھبھکیاں اور دھمکیاں اور پھر ویڈیو گھر گھر سنی جارہی ہے۔ خوف وہراس، بے چینی اور ہیجان کی کیفیت۔ جان کی امان پا کر بھی کوئی سیدھی ڈنگی نہیں کہہ رہا ہے۔ گلیاں سنسان ہو گئی ہیں اور مرزا یار سونی گلیوں میں پوری آزادی سے پھررہا ہے۔ آزاد معاشرہ۔ مادر پدر آزاد۔ پگڑی اچھالیں، گریبان پکڑیں یا دھوتی اتار دیں۔ ایسی صورتحال پر جوتی اتارنا بنتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جوتی کون اتارے۔ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ اب ہر شخص جواب مانگتا ہے۔ کس سے۔ اپنے ہی جیسوں سے۔ چور بھی شور مچانے کی ساری حدیں پھلانگ چکا ہے۔ دیوار پھلانگنے سے ٹانگیں ٹوٹنے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ امکان کی بدولت ہی تو جاہل عالم، مسخرے دانشور اور مریض طبیب بن گئے ہیں۔ یہی تو انقلاب ہے الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور اب اس گنگا میں ہاتھ دھونے سے سوشل میڈیا کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس دوران ہم سب کو کہیں خود نمائی کا دورہ ہی نہ پڑ جائے۔ سوچ کی ریل گاڑی کو ایک نئی پٹڑی پر ڈالنے کی ضرورت ہے اور یہی آج کی اہم ضرورت ہے۔ نوزائیدہ بچوں کے کانوں میں حق اور سچ کی بانگ دینے کی اشد ضرورت ہے لیکن انتہائی خاموشی سے تاکہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے اور سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی بچ جائے۔ افسوس سانپ بہت دیدہ دلیر ہو چکا ہے سوچ کی گاڑی کا پہیہ جام ہو چکا ہے اب تو لٹھ کو توڑنا ہی پڑے گا۔ کشتیاں جلانے سے اہداف حاصل ہوتے ہیں اور جمع تفریق یا ضرب تقسیم سب کی صورت میں حاصل کی مرکزی حیثیت ہے۔ اب صاحب حیثیت بھی محتاط ہو گئے ہیں اور گہری سوچ میں گم ہیں۔ ان کی میراث کو بھی خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔ حق اور ناحق کی تمیز ختم۔ بدتمیز حق گوئی و بے باکی کا نام نہاد مدرس بن کر “شوک” رہا ہے۔ سارے معاشرے کو سوشل میڈے کا زہر چڑھ گیا ہے۔ پوری طرح مت ماری گئی ہے۔ویسے سمجھ تو لگ گئی ہے سوشل میڈیا آج کی بہت بڑی ایجاد ہے۔ تلی پر سرسوں جم چکی ہے۔ گلوبالائیزیشن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب بے شمار بچے پلیٹ فارم نہ ملنے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے محروم رہتے تھے۔ بلکہ سہمے سہمے رہتے اور شکایت کرنے کا بھی ان کے ہاں حوصلہ نہیں تھا۔ کاش وہ حوصلے سے کام لیتے تو ہم سب آج ان کا ادب و احترام سے نام لیتے۔ ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنا اور وہ بھی غیر ضروری دیکھنا انسان کو مایوس کردیتا ہے بلکہ بعض اوقات تو ہم جیسے ہی اپنی بے بسی پر ماتم کرکے اپنی چنڈوں سے اپنا ہی منہ سرخ کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اذیت دے کر دل کا غبار نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ فطری اور غیر فطری کی سدا بہار بحث اور وہ بھی سیر لا حاصل۔ اب تو سوشل میڈیا ہم سب کا دن رات کا ساتھی ہے بلکہ رات کا تو جگری یار ہے۔ بیٹھ میرے پاس تجھے دیکھتا رہوں۔ زیادہ دیر نظر ٹکانے سے آنکھوں کو نظر بھی لگ جاتی ہے۔ اور کچھ ہو نا ہو عینک ضرور لگ جاتی ہے اور ہم محتاج عینک ہو جاتے ہیں۔ عینک کی بھی بہت ورائیٹیاں ہیں۔ پسند اور ناپسند کی بھی ایک علیحدہ سٹوری ہے۔ اب تو آنکھیں بند کر کے سوشل میڈیا سے اپنے آپ کو وابستہ کر لینا چاہیئے اور اس گھوڑے کو اپنے حساب سے سدھارنے کی پوری کوشش کرنا ہوگی۔ شعور کی لگام سے اس کو صراط مستقیم پر چلایا جا سکتا ہے۔ آغاز کرنے والا پائینیئر ہو گا اور اس کی فالوونگ میں بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو گی۔ ترقی کے اس سفر میں ہمیں ولی عہد کے معمولات پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ وہ بھی بہرحال آنکھ رکھتا ہے۔ بے سبب اٹھ گئی ہو گی اور پھر اکھ مٹکا۔ خواہ مخواہ کی تضحیک۔ یہ وہ مسئلے مسائل ہیں جو سوشل میڈیا کے آنے سے ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں غلام فرید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی راجن پور کیمپس میں سول انتظامیہ کے اشتراک سے نوجوان نسل اور سوشل میڈیا کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔ وائس چانسلر جامعہ مذکور، پروفیسر نعیم مسعود معروف کالم نگار، پروفیسر شاہد اشرف، سردار عبدالعزیز جگن خان دریشک ایم پی اے اور دیگر مقررین نے موضوع کے بارے میں مختصر مگر جامع تقاریر کیں۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ہم نے تو دو حرفی بات کی کہ میاں سوشل میڈیا نے تو اب آکر لمبی سوچیں لاہمے کرکے وچ بازار ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور نوجوان نسل کو اپنی طرف مائل اور قائل کرنے میں مسلسل بر سر پیکار ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی مسئلہ پر اکٹھے ہو جائیں۔ وکھو وکھ۔ لیکن اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ متذکرہ بالا سیمینار کے اختتام پر ہم اس بات پر متفق الیہ تھے کہ سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اسی میڈیا کی بدولت گلوبالائیزیشن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔ اب تو ہم کو سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کا پوری طرح ادراک ہو جائے خصوصا ہماری نوجوان نسل جنون اور جوش کی دنیا سے نکل کر ہوش کے ناخن لے تاکہ ان کے دل ودماغ میں پنپنے والے خیالات کو آب اخلاقیات سے دھو کر پاکیزہ کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران ان کے پیش نظر ان کے والدین، اساتذہ اور ملک وقوم ہونے چاہیئیں۔ ان کی کسی بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی وجہ سے ان کے والدین اور اساتذہ کو اس وجہ سے گالیاں نہ دی جارہی ہوں کہ انہوں نے کیسی تربیت کی ہے۔ ویسے بھی گالی گلوچ کا جواب گالی گلوچ سے ہی دیا جاتا ہے۔ بلکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے۔ ویسے اینٹ کے نتیجے میں پھول پھینک کر روایت کے بت کو توڑا بھی جا سکتا ہے اور روایت شکن ہی آئندہ آنے والے دنوں میں بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں۔ بصورت دیگر لوگ ضمیر کی عدالت میں بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ہزیمت کی صورت میں جگ ہنسائی اور بے چینی بلکہ ڈپریشن اور پھر ٹکریں، اندھا پن، حسرت ویاس اور بالآخر خود کشی۔ خود کش خود بھی مرتا ہے اور اپنے ساتھ کئی اپنے جیسوں کا بھی سر لے جاتا ہے۔ سر سلامت، سر اونچا اور لوگ سر کے بل آپ کے پاس آنے پر مجبور ہوں اس لئے اے میری نوجوان نسل۔ سوشل میڈیا پر اپنے اور اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرو۔ بین الاقوام میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا حق ادا کرو اور اس ادائیگی میں ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیئے کیونکہ اس دھرتی نے بھی ہمیں پالنے پوسنے میں کنجوسی نہیں کی ہے۔ آنے والا کل نوجوان نسل کا ہے اور آپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے سے پوری دنیا کو بتانا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ بہر حال سیمینار کے دوران پروفیسر نعیم مسعود کی تقریر نے نونہالان وطن کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم کو جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔ محترمہ مریم نواز شریف وزیر اعلی پنجاب کے سارے پروگرام اور خصوصا ہونہار اور دھی رانی نوجوان نسل کے حوالے سے قابل تحسین ہیں۔
11