19

مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن

مانیٹرنگ اینڈ ایویلوایشن۔ کہنے کو انگریزی کے دو الفاظ ہیں لیکن ان کے لاگو کرنے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ ویسے تو کافی سالوں سے دودھ اور پانی یک جان ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرا بچہ نیوٹریشن پرابلم کا شکار ہے اور بے شمار بیماریوں کا ہڑ آگیا ہے اور اس ہڑ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بندہ اپاہج بھی ہو سکتا ہے۔ سوچ سوچ کے زندہ لاش بھی بن سکتا ہے، معاشرتی طور پر تنہا اور معاشی طور پر مفلوک الحال ہوسکتا ہے اور اگر اعصابی طور پر کمزور ہو اور سوشل میڈیا کے دور میں مذکورہ مسئلہ کا شکار ہونا قرین قیاس ہے۔ ایسی صورت میں تو انتہائی قدم خود کشی ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ میں بڑا ہی فرق ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ عصر حاضر میں پڑھے لکھے جلد ڈسٹرب ہورہے ہیں اور ایک دو قدم چل کر انتہائی قدم یعنی خود کشی کے آپشن پر چلے جاتے ہیں۔ کہاں گیا علم اور کہاں گئی علم کے نتیجے میں حکمت ودانش۔ ہمارے ہاں مسئلہ کوالٹی ایجوکیشن کا ہے۔ روشن خیال اور بیدار مغز لوگ معدود راستوں والی آبادی میں بھی راہیں نکال لیتے ہیں اور آگے بڑھ کر اپنے آپ کو سوسائٹی کے سامنے بطور ماڈل پیش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ماڈل کا بکثرت استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ بھی بازاری رنگ اختیار کرگیا ہے اور بازار کے اپنے دستور اور ضابطے ہوتے ہیں جس میں مختلف نیٹ ورک اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں جس سے ماڈل کے لفظ کی حرمت سمجھنے میں ہم سب ناکام ہوجاتے ہیں اوپر سے آج کل مارکیٹنگ کا دور ہے اور ہر چیز مارکیٹ کرنے کے لئے مرچ مصالحہ لگانا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم تو چونا بھی لگا لیتے ہیں اور پھر ہم سب کے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے۔ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ “دھی ماں نوں لٹ” کے نودو گیارہ ہو جاتی ہے اور ہم بیچارے لوگ۔ ہمارے مسئلے مسائل اور ہمارے رولے گھولے۔ اس سارے منظر میں مربوط پالیسی سازی کی بہت ہی ضرورت ہے تاکہ ہمیں نشان منزل کا پتہ ہو۔ راہ منزل کا سراغ لگانے کا بھی ہمیں بتا دیا جائے اور زاد راہ۔یوں سفری صعوبتیں نہ تو ہمیں تھکنے دیں گی۔ نہ ہم مایوس ہوں گے۔ نہ ہی ہمارا مورال ڈان ہوگا اور نہ ہی ہم خرگوش کی چال چلیں گے۔ہاں دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر آگے بڑھتے جائیں گے اور “نیویں نیویں” ہو کر اور دھیرے دھیرے اپنی منزل پر پہنچ کردم لیں گے۔ یوں ہمیں دم درود کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو جائیگی پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگادیکھنے بھالنے، سوچنے سمجھنے اور اس کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا نام ہی تو مانیٹرنگ اور ایویلوایشن ہے۔ پالیسی سازی میں برین سٹارمنگ خشت اول ہے اور اس سے بڑھ کر بھی مضبوط بنیاد کا ہونا شرط اول ہے بصورت دیگر تاثریا می رود دیوار کج۔ کج کلاہ سارا تصنع اور بناوٹ ہے اور بناوٹی چیزوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ سچائی اور نیک نیتی سے دائمی بنیادیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ پالیسی سازی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اور پھر قابل عمل پالیسی کے نفاذ کا سارا عملدرآمد مانیٹرنگ اور ایویلوایشن پر ہوتا ہے۔ مجھ جیسے پینڈو افسر آج تک کچھ لفظوں کو محض لفظ ہی سمجھتے رہے۔ یوں کہیے لفظوں کی نورا کشتی سمجھتے رہے بلکہ دنیائے بیوروکریسی میں لفظوں کا گورکھ دھندہ سمجھتے رہے۔ ہم ایسا کیوں سمجھتے رہے۔ یہ بھی ایک اچھا سوال ہے اور اس سوال کے جواب کو سوچ سمجھ کردینا پڑے گا۔ ہاں ایک بات پکی ہے کہ ہمیں مذکورہ ساری باتوں کا دنیا اور آخرت دونوں میں جواب دینا پڑے گا۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ بروقت فیصلے نہ کرنے سے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور پھر ہرکسی کو اپنی اپنی پڑ جاتی ہے۔ یوں سمجھیں نفسا نفسی کا عالم۔ قارئین کرام۔ تیس سال نوکری کرنے کے بعد میں مانیٹرنگ اور ایویلوایشن کے بارے میں اس وقت سنجیدہ ہوا جب بریگیڈیئر ریٹائرڈ بابر علاالدین مشیر وزیر اعلی پنجاب ضلع راجن پور کے دورے پر آئے اور ان کا دورہ خیر سگالی کا نہیں تھا بلکہ ان کا کام وزیر اعلی پنجاب کی پالیسی ہائے کے عملدرآمد کی مانیٹرنگ اور ایویلوایشن کرنا تھا۔ یقیینا پالیسی ہائے مذکور کا کوانٹم وسیع تھا اور اس کام کی انجام دہی ایک دو دن میں ممکن نہ تھی۔ ریٹائرڈ افسر تھک بھی جلدی جاتا ہے اور پھر پیچھے بھی کوئی کم ذمہ داریاں نہیں ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ راجن پور کے سکیورٹی حالات۔ غیر یقینی اور انتہائی خطرناک۔ ایک خیال تھا ایک دو یوم میں مشیر مذکور اپنی مفصل رپورٹ مرتب کرلیں گے اور پھر تسیں اپنے گھر اسیں اپنے گھر۔ استثنائی صورت حال کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ فوج ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ریکروٹمنٹ کا نظام منفرد، تربیتی پروگرام منفرد، ٹرانسفر پوسٹنگ کا طریقہ کار منفرد، کمٹمنٹ منفرد، ٹارگٹ واضح اور منفرد، پرخار راستوں پر چلنے کا سلیقہ منفرد اور پھر حتمی رپورٹ منفرد۔ متذکرہ بالا نظام میں تیار ہو کر بریگیڈیئر ریٹائرڈ بابر علاو الدین سیاست کے پر خار بلکہ پر خطر راستوں پر چلنا شروع ہوجاتا ہے اور مانیٹرنگ اور ایویلوایشن کے ذریعے سے محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلی پنجاب کے پروگرامز کے عملدرآمد کے لئے راجن پور آجاتا ہے۔ اچھے کام کی تحسین، تشنہ لبی پر صائب مشورے اور صریحا ناپختہ عملدرآمد پر یوں سرزنش کہ سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی بچ جائے۔ ذہن سازی کتنی اہم ہے اور آج کے پر فتن دور میں بچوں کے ذہنوں میں اخلاقیات کے موتی پرونا اور ان کی گلوبلائزیشن کے پیش نظر آنکھیں کھولنا اور یوتھ کی تعلیم وتربیت۔ یہ سارا کچھ اور اس کے لئے سکولوں کالجوں میں بچوں سے مکالمہ۔ ہائے ہم مکالمہ کی اہمیت بھول گئے حالانکہ آج اور کل میں بڑا فرق ہے اور ہم نے اپنی یوتھ کو کل کے لئے تیار کرنا ہے۔ مشیر مذکور نے راجن پور جیسے ضلع کے بچوں کو ایک نئی سحر کا خواب دکھایا اور خوب دکھایا۔ ترقیاتی کام سے ہی ملک آگے بڑھتے ہیں اور اس حقیقت کے پیش نظر وہ سکولوں ہسپتالوں اور سڑکوں میں گئے اور خوب گئے اور مزے کی بات ہے کہ وہ تو ساوتھ پنجاب کی چوٹی ماڑی پر پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر انہوں نے سرائیکی وسیب کو اوپر آنے کی دعوت فکر دی اور ان پر واضح کیا کہ ان کے وہاں آنے سے ان کی سالہا سال کی محرومیاں جھٹ میں ختم ہو جائینگی اور ماڑی ہل اسٹیسن کی تعمیر وترقی کے لئے محترمہ مریم نواز نے چار سو ملین کے خصوصی پیکج کا بھی اعلان کردیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے تو اس ضلع میں کھیلوں کے لئے بھی کروڑوں روپے مختص کردیئے ہیں۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی سٹیٹ آف آرٹ تزئین و آرائش۔ ویمن امپاورمنٹ اور غربت مکاو پروگرام کے بے شمار پروگرام۔امن وامان کو یقینی بنانے کے لئے بارڈر ملٹری پولیس کی ازسرنو تنظیم سازی اور پنجاب پولیس کی جدید تقاضوں کے مطابق ادارہ جاتی تنظیم نو۔ بابر علاالدین اور مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر میں ایک قدر مشترک ضرور ہے۔ دونوں موصوف ان تھک اور برق رفتار۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانچ دن پورے۔ کام مکمل ہوا ہے یا پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک مزید مشکل سوال ہے ابھی تو بریگیڈیئر ریٹائرڈ بابر علاالدین اور محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلی پنجاب کی مشاورت سے اور حکمت عملی سے راجن پور اور رحیم یار خان کے کچے نے پکے میں تبدیل ہونا ہے۔ امید واثق ہے کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ بابر علاالدین اپنی گرومنگ کے حساب سے یہ کام بھی احسن طریقے سے سرانجام دیں گے، انشااللہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں