17

ہماری ذمہ داریاں

یہ وطن ہمارا ہے اور ہم ہی نے اس کو سنوارنا ہے اور اس کام کرنے کے لئے ہمارے ہاں جذبہ حب الوطنی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دانائی، حکمت، احساس ذمہ داری اور سلیقہ شعاری کا بھی ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ جوش اور ہوش میں فرق کا شعور بھی ہونا چاہیئے اور شعور بیدار کرنے کے لئے علم کا حاصل کرنا ہم سب پہ لازم ہے۔ علم کے حصول کے لئے تو چائنا میں بھی جانا پڑے تو جانا ہوگا کیونکہ آج سے بہت ہی پہلے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرما دیا تھا اور اب تو چائنا نے ساری دنیا پر اپنی اہمیت ثابت کردی ہے اور پھر چائنا نے اپنے عمل سے دنیا والوں کو بتا دیا ہے کہ پاکستان اور چین ایک ہیں۔ موخرالذکر کی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی فوج۔ اخیر اخیر ہے۔ مزے کی بات ہے کہ نریندرمودی الحفیظ الامان کی کیفیت میں ہے اور محترم و مکرم ٹرمپ لائٹر ٹون کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ لیکن حقائق سر چڑھ کر بولتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صدر امریکہ وزیر اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل کا مکمل طور پر قائل ہو گیا ہے۔ جینوں اللہ رکھے اوہنوں کون چکھے۔ انڈیا نے شوق پورا کرتے کرتے دانت تڑوا لئے ہیں اور دنیا کا جگا اسرائیل غزہ کے حل پر بھی آمادہ ہو گیا ہے۔ ایک ہندو وپاک جنگ نے طے کردیا قصہ تمام۔ ایک وقت تھا جب قصہ گوئی کا دور دورہ تھا اور کہانیاں افسانوی لگتی تھیں لیکن آج حقیقت میں جہاز اڑنے سے پہلے ہی جام ہو جاتے ہیں اور یہ آنکھوں دیکھا حال ہے۔ تاہم پاکستان مخالف قوتوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے۔ ویسے تو آج کی دنیا میں انہونی پر انہونی ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کا دنیا کی واحد سپر پاور کا دوسری مرتبہ صدر بن جانا کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے تو دن پھر گئے ہیں۔ ڈالر رک گیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے گرنے کی خبریں آنا بند ہو گئی ہیں۔ ڈیفالٹ کا منحوس لفظ دور کہیں بہت ہی دور حرف غلط کی طرح مٹ گیا ہے۔ طرح طرح کے پراپیگنڈے دم توڑ گئے ہیں، امین گنڈا پور وزارت اعلی چھوڑ گئے ہیں۔ جنون نے ہوش کے ناخن لینے شروع کردیئے ہیں بہرحال یہ شروعات ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ آدمی وہی کچھ کاٹتا ہے جو بوتا ہے اور وقت کی اہمیت کو جان جانے والا ہی لمبی تان کے سوتا ہے۔ سونے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے خرگوش کی نیند سونے والے کچھوے کی چال دیکھتے رہ جاتے ہیں اور زندگی کے سفر میں بہت ہی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کمپلیکس بھی ایک عجیب مرض ہے اس مرض میں مبتلا غیر ضروری سوچتے رہ جاتے ہیں اور سمارٹ پلے کرنے والے آگے نکل کر کھیلتے ہیں اور پھر سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔ ہوشمند اور عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔ باڈی لینگویج اور اشارے کنائے کی زبان سمجھنے والے منزل پر پہنچ کر دم لیتے ہیں اور دیکھنے والے رشک کرتے ہیں۔ ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں اللہ نظر بد سے بچائے ویسے تو جن کے حق میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں وہ خود بخود ہی محفوظ ہاتھوں میں آجاتے ہیں۔ راہ دیکھنے والے بسااوقات راستہ روکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مجبور تو پھر مجبور ہوتا ہے۔ بعض لوگ خواہ مخواہ مجبور ہوتے ہیں جیسے کچھ ہم جیسے لوگ دل کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور ایسے مجبور لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ دھرنا ورنا، رونا دھونا، اپنے آپ میں کھونا، لمبی تان کے سونا تاکہ طرح طرح کے خواب آئیں۔ ویسے تو خواب دیکھنا بری بات نہیں ہے لیکن خواب خواب میں فرق ہوتا ہے بعض خواب دیکھنے سے بندہ ترقی کے زینے طے کرجاتا ہے اور بعض ایسے بھی خواب ہیں جن سے بندہ رسوا ہوتا ہے اور وہ بھی سر بازار بلکہ کہیں کا بھی نہیں رہتا یہاں تک کہ اپنا بھی نہیں رہتا اور بالآخر اپنے آپ میں بھی نہیں رہتا۔اس کے بعد تو ہیجان اور جنون کی ملی جلی کیفیت۔ اپنے اور غیر دونوں ناخوش اور بیزار۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو ہم سب کو پیش نظر رکھنا ہے چونکہ کارآمد ہیومن ریسورس ہی کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ صاحب کردار اور باکردار ہماری اولین ترجیح ہے۔ سوشل میڈیا واقعی آگاہی کا کام کررہا ہے تاہم ہر شخص کو ایک پلیٹ فارم مل گیا ہے اور ہر شخص کا میچورٹی لیول ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔ سننے اور سنانے والے دونوں طبقات کے آنکھوں اور کانوں کا تربیتی پروگرام بہت ضروری ہے تاکہ دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان بڑا ہی محتاط پلے کریں۔ اپنے آپ کو اور اپنے جیسوں کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے پہلے ہی بہت نقصان کرلیا ہے۔ ہمارا ہر طبقہ آگے دیکھنے کے چکر میں ہے اور آگے دوڑ پیچھے چوڑ ہوتا ہے۔ پیچھے دیکھ کر آگے کے سفر کو خوبصورت بنانا ہی دانائی ہوتی ہے۔ ماضی سے انقطاع بھی ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بتائی جارہی ہے۔ تاریخ جغرافیہ کا مضمون کسی دور میں لازمی طورپر پڑھایا جاتا تھا اب نئے نئے رجحانات مارکیٹ میں اگئے ہیں اور ان رجحانات کی شناخت پریڈ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ریاست ماں ہے اور ماں کو بیچنا کیسا ہے اس بارے میں ہم سب کو شعوری آگاہی ہونا چاہیئے۔ ہمارے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا کتنا ضروری ہے۔ کام کے لئے عہدے کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ کسی بھی حیثیت میں کام کیا جا سکتا ہے۔ کام کے بدن میں نیک نیتی روح کا کردار ادا کرتی ہے۔ روح اور بدن لازم وملزوم ہیں بصورت دیگر ہم سب اپنے ضمیر کو مردہ کرنے کے مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں اور شعور کی عدالت ہم کو باقاعدہ سزا دیتی ہے اور ہم سزا بھگتتے ہوئے زندہ لاش بن جاتے ہیں۔ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔ مذکورہ صورتحال پر سوشل میڈیا کو ٹھیک ٹھاک تبلیغ کرنا ہوگی بلکہ تبلیغ زبانی کلامی نہیں ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کرے گا کون۔ میں، آپ، ہم یا پھر ہم سب مل کر کریں گے۔ ہم سب کو مل کر کرنے کے لئے سب سے پہلے باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا اور باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے انا کے گھوڑوں سے اترنا ہوگا لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اور اس کے لئے ایک عرصہ درکار ہے۔ فوری طور پر اپنے آپ کو ماڈل کے طور پر پیش کرنا چاہیئے۔ بات کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا ہوگا اور سوچنا بھی اپنے ملک کی بقا اور استحکام کے حوالے سے ہوگا۔ ملک ہے تو ہم ہیں ملک کے وسائل ہیں تو ہماری معاشی حالت بہتر ہوگی۔ ملک میں امن ہے تو ہم سب اپنی صلاحیتوں کا اچھی طرح سے مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ملک میں اگر ذاتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اداروں کو کام کرنے دیا جائے تو افراتفری اور غیر یقینی کی صورت حال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے بے شمار اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور ان باتوں کو ہم سب کو ایک دوسرے کو بتانا ہوگا بلکہ یہ سب کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں