10

آوارہ کتے مار دیں

ابھی چند ہی دن پہلے چند آوارہ کتوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ یہ وہ کتے ہیں جن کا کوئی باقاعدہ “تھینہہ” ٹھکانا نہیں ہوتا۔ وہ کسی ایک در کے نہیں ہوتے بلکہ در در جاتے ہیں اور جہاں سے جو ملا کھا پی کر ڈکار مار جاتے ہیں ویسے میں نے انہیں ڈکار مارتے ہوئے بچشم خود نہیں دیکھا ہے یہ سنی سنائی بات ہے اور کہتے ہیں سنی سنائی بات پر یقین نہیں کرنا چاہیئے اب قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مرضی کریں کیونکہ وہ اس ملک کے آزاد شہری ہیں۔ ہاں ان آوارہ کتوں کی یہ بھی خوبی ہے کہ اول تو وہ کسی پر بھونکتے نہیں ہیں اور اگر بھونک پڑیں تو ان کی بھونک کو آسانی سے نہیں بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ ویسے بھی من کے موجی ہوتے ہیں جس کے چاہتے ہیں پیچھے پڑ جاتے ہیں اور مزے کی بات ہے سب کو کاٹتے نہیں بعض کو صرف ڈراتے ہیں کیونکہ یہ حضرات بھی مار اور الار کے فلسفے سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں تاہم کبھی کبھی کاٹنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں تاکہ سند رہے اور لوگ ڈرتے رہیں ورنہ مسکینوں کے بھی بسا اوقات مخالف پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کو نیچا دکھا کر اپنی عظمت کا ڈھول پیٹتے ہیں اس کے علاوہ بڑی مچھلی کے کرتوت اف اللہ توبہ توبہ۔ آوارہ کتوں کی یہ بھی خاصیت ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر رہتے ہیں۔ بڑے سیانے ہیں جانتے ہیں کہ اتفاق میں برکت ہے اور اکیلے میں تو مرنے کا قوی امکان ہوتا ہے شاید اسی لئے ایک روشن خیال شاعر نے بھی ایسے ہی ایک کتے کو مفت مشورہ دے ڈالا حالانکہ مفت کا تو آجکل زہر بھی نہیں ملتا ہے۔ شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔( بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا۔۔۔بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائیگا) مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں لگی ہے کہ یہ شاعر کتوں پر اتنا رحم کیوں کھاتے ہیں۔ شاعروں کی کیا بات ہے۔ آوارہ کتے اور آوارہ شخص میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے تاہم انسان اور حیوان میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے خصلتوں اور حرکتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور محترم شاعر نے تو آوارگی کے تن مردہ میں کچھ یہ فرما کر جان ڈال دی ہے( یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا۔۔۔۔جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے) داستاں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ورنہ ہماری داستانیں انہونیوں سے پوری طرح اٹی ہوئی ہیں۔ تاہم شاعری کی یہ خوبصورتی ہے شعر دل میں اتر جاتے ہیں اور آنکھوں اور کانوں سے دھواں نکال دیتے ہیں ایسے واقعے کا ہونا بھی ایک نئی انہونی ہے۔ حیرت کی تو یہ بات بھی ہے کہ حضرات شعرا نے کتوں کا انسانوں کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کر کے خوب داد سمیٹی ہے سیانے کہتے ہیں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور افسانوی چیزوں کا کوئی مول نہیں ہوتا ہے۔ یاد آیا آوارہ کتے بھی کبھی کبھی خواہ مخواہ آوٹ ہو جاتے ہیں اور جو ان کے دل میں آتا ہے آول فاول بک دیتے ہیں۔ شریف آدمی تو ایسی حالت میں بہت ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے اس کا خیال ہے کہ کتے کا ایسا رویہ اچھا شگون نہیں ہے اور وہ اپنے پیاروں پر مرچیں وار وار کر آگ میں پھینکتا ہے اور آگ کے قریب بیٹھے لوگوں کی “ناسوں” سے دھواں نکل آتا ہے اور وہ بھی بک بک رونے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ بعض مدبرین کا خیال ہے کہ انسان مجبور محض ہے۔ ویسے تو کتا بھی صفت مذکور کا حامل ہے۔ اسی لئے ہمارے سب شاعروں نے اور بالخصوص صوفی شاعروں نے کتے کی مثال دے کر انسانی غیرت کو جگانے کی سعی جمیلہ کی ہے بلھے شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے( راتیں جاگیں شیخ سداویں راتیں جاگن کتے۔۔تیں تھیں اتے۔۔۔مالک دا در مول ناں چھڈدے بھاویں مارے سے سے جتے تیں تھی اتے۔۔اٹھ بلھیا چل یار منا لے نئیں تے بازی لے گئے کتے۔۔تیں تھی اتے) یار کا معاملہ بھی بڑا حساس ہے اس کے لئے راتوں کو جاگنا پڑتا ہے اور تخیل کی دنیا آباد کرنا پڑتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تخیل کی دنیا آباد کر کے ہی اپنی دنیا آباد کی جا سکتی ہے۔ من کی دنیا اور ہے اور تن کی دنیا اور ہے اس فرق کو سمجھ کر ہی کتوں پر برتری حاصل کی جا سکتی ہے۔ کہتے ہیں منگول بادشاہ کے مظالم کے سامنے ایک بابے نے کتے کی مثال کا ایسا بند باندھا تھا جو آج تک اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ اب تین کردار کھل کھلا کر ہمارے سامنے آگئے ہیں ایک کتا دوسرا انسان اور تیسرا بابا۔ بابے بھی کمال لوگ تھے ویسے تو رائی کا پہاڑ بنا دیتے تھے اور درحقیقت ذرے کو زر بنانے کا گر سکھا دیتے تھے( ہم فقیروں سے دوستی کرلو۔۔۔گر سکھا دیں گے بادشاہی کے) اصل بابے تو آوارہ کتوں کے گلے میں پٹہ ڈال کر انہیں نایاب بنانے کا سلیقہ جانتے تھے۔ بہرحال آوارہ کتے آوارہ ہوتے ہیں اور پالتو کتوں کی بات نہ پوچھو۔ منوں گھی بمعہ بادام اور اخروٹ کھاجاتے ہیں۔ سردی میں گرم لحاف لے کر سوتے ہیں اور گرمیوں میں فل سپیڈ چلر اور وہ بھی دو دو استعمال کرتے ہیں۔ بیچارے نادار اور مفلس انسان اور بڑے گھرانوں کے کتوں کا کیا موازنہ۔ کچھ چیزوں سے چشم پوشی( آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آسکتا نہیں۔۔۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی) شعرا اور خصوصا صوفی شعرا فن شاعری میں تشبیہات واستعارات کے پابند ہوتے ہیں اور بقول غالب( ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو۔۔۔بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر)۔ کتوں کا ماضی اپنی جگہ، شعرو شاعری اور حکمت بھی اپنی جگہ البتہ اب سوشل میڈیا کا دور ہے اور اب کتوں کی خیر نہیں ہے۔ ابھی شکاری اور “بولی” کتے زیر بحث آنے ہیں اور اس کے بعد عصر حاضر میں آوارہ کتے کا رول اور اس کے بارے میں مجموعی طور پر لوگوں کا ردعمل اور اس ردعمل کی سوشل میڈیا پر گونج۔ اس گونج نے تو سب کو پریشان کردیا ہے۔ کاش آوارہ کتا بائولا نہ ہوتا تو آج اس قدر کتوں کے بارے میں اتنی “کتیا کتیا” نہ ہوتی۔ اب بھی کتوں کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کر لینی چاہیئے بصورت دیگر سرنڈر کرنا ہی بہتر ہے ورنہ زہر کی خریدوفروخت کے سلسلے میں نئے نئے سکینڈل منظر عام پر آئیں گے۔ مجموعی طور پر احتیاط ضروری ہے۔ایسے کتوں کو اب تلف ہو ہی جانا چاہیئے کیونکہ بائولا کتا بڑا ہی نقصان کر جاتا ہے اور میں نے بھی اپنی زندگی میں دو گھر ایسے دیکھے ہیں جو ہنستے بستے تھے پہلے ایک شخص متذکرہ بالا کتے سے متاثر ہوا اور پھر پورے گھر کے مرد حضرات متاثر ہوکر لقمہ اجل بن گئے اسی طرح کی کئی دوسرے گھروں کی بھی کہانیاں ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ۔ آوارہ کتوں کو یا تو پٹا ڈال کر ان کی حرکات وسکنات کو کنٹرول کرلینا چاہیئے یا پھر ان کو تلف کر دینا بہت ضروری ہے۔ معاشرے کو اور اداروں کو اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ انسانی جانوں کو اس خطرے سے محفوظ بنایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں