74

FBR کا ٹریک اینڈ ٹریس نظام (اداریہ)

ایف بی آر ملک کا اہم ترین محکمہ ہے جس کا کام محاصل اکٹھے کرنا سمیت متعدد اقدامات تجویز کرنا’ انکی نگرانی کرنا ہے جب بھی کوئی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو سب سے پہلے اسی محکمہ میں اصلاحات کا اعلان کرتی ہے، کلیدی عہدوں پر تبادلے ہوتے ہیں محاصل میں اضافہ کیلئے مؤثر اقدامات کا عندیہ دیا جاتا ہے محکمہ کے افسران نئی حکومت کی جانب سے دیئے گئے اہداف کو حصول کیلئے سرگرم ہو جاتے ہیں محاصل میں اضافہ کے اہداف حاصل بھی کر لئے جاتے ہیں مگر پھر بھی ملک کے مالی مسائل حل نہیں ہو پاتے،’ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی کم شرح اور متضاد پالیسیوں کی بناء پر آمدنی کا خسارہ اور بے تحاشا ٹیکس چوری جیسے مسائل ہمیشہ سے ہر حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں رہے’ حالیہ برسوں میں حکومتی سطح پر ان مسائل کا سنجیدگی سے ادراک کیا گیا ہے حکومت ایسے مسائل کا حل آٹومیشن کو کلیدی سمجھتی ہے اور اسی تناظر میں FBR کی جانب سے ہر سال جدید سافٹ ویئرز اور نئے ٹولز متعارف کرائے جاتے رہے ہیں لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح تاحال محض 10فی صد کے اردگرد ہے جو عالمی بینک کی جانب سے 15فی صد سے بہت کم ہے، ٹریک اینڈ ٹریس نظام بھی ایسا ہی ٹول ہے جسے ایف بی آر نے ایکسائز ٹیکس کی بہتر وصولی کیلئے متعارف کروایا تھا، دیگر تمام آٹومیشن اقدامات کی طرح اس نظام کا مقصد بھی متعدد شعبوں جیسے سیمنٹ’ چینی’ تمباکو’ کھاد اور حال ہی میں شامل کئے گئے ٹائلز کے شعبے میں ٹیکس چوری کو ختم کرنا ہے ایف بی آر کے مطابق محصولات میں اضافے’ جعلسازی کو کم کرنے اور اشیاء کی سمگلنگ کو روکنے کیلئے اس نظام کو یکم جولائی 2021ء میں متعارف کرایا گیا تھا مگر اڑھائی برس گزرنے کے بعد بھی اس نظام کی رفتار نہایت مایوس کن رہی ہے سیمنٹ کا شعبہ اس نظام کی آزمائش سے گذر چکا ہے اسے اپنے شعبے میں اس نظام کو عملی طور پر لاگو کرنے کیلئے رواں سال اپریل کی ڈیڈلائن دی گئی ہے تمباکو سیکٹر کی 40 میں سے محض دو کمپنیوں نے اپنے سسٹم میں اس نظام کو مکمل طور پر نافذ کر لیا ہے ایک اور کمپنی نے اس نظام کو جزوی طور پر نافذ کر دیا ہے جبکہ 6کمپنیاں خود کار طریقے کے بجائے ہاتھوں سے ٹیکس لگا رہی ہیں کمپنیوں کی جانب سے غیر خود کار طریقے سے ٹیکس سٹیمپ لگانے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ مختلف شعبوں میں تکنیکی تفریق پر نہایت محدود تحقیق کے بعد ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو متعارف کرا دیا گیا ہے۔ تاہم کوئی خاطر خواہ پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی ایف بی آر محکمہ میں ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے ملک گیر عملدرآمد میں تاخیر’ ٹیکس سٹیمپ کا دستی اطلاق’ نظام کا غیر مؤثر ہونا اور اس کے دائرہ کار سے متعلقہ لاتعداد مسائل کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں آنے والے کچھ برسوں میں مکمل طور پر غیر مؤثر ہو جائے گا، مختصراً یہ کہ ٹیکس چوری روکنے کا یہ سسٹم بھی غیر مؤثر ہو گیا تو ایف بی آر کیلئے محاصل کے اہداف پورے کرنے میں مشکلات سامنے آئیں گی اس حوالے سے حکومت اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا تاکہ ملک میں ٹیکس چوری روکنے کے لیے ایسے اقدامات کئے جا سکیں جن کی بدولت ملکی خزانے میں اضافہ ہو’ حکومتی اداروں کو سگریٹس’ کھاد’ چینی’ سیمنٹ کی سمگلنگ کرنے والوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا سمگلنگ مافیا کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے سرکاری افسران واہلکاروں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہو گا ٹیکس چوری میں ملوث بڑے بڑے اداروں کے خلاف کارروائی کرنی ہو گی چھوٹے دکان داروں پر بوجھ ڈالنا ملک میں بے چینی کا سبب بن سکتا ہے لہٰذا پرچون فروشوں پر بے جا ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے اشرافیہ کی مراعات ختم کر کے بھی بچت کی جا سکتی ہے علاوہ ازیں ایف بی آر میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ کرپٹ افسران اور اہلکاروں کو بھی بے نقاب کیا جائے کیونکہ یہ بات متعدد بار میڈیا پر آ چکی ہے کہ ایف بی آر کے بعض افسران واہلکاران ٹیکس دہندگان کو بلاوجہ ہراساں کر کے ان سے نذرانے وصول کرتے ہیں حکومت کو اس حوالے سے بھی ضروری اقدامات کر کے محکمہ سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں