26

PIA فروخت’ IMF سے 26ارب کی چھوٹ مانگنے کا فیصلہ (اداریہ)

پی آئی اے کی خریداری کے لیے سرمایہ کاروں کے تقاضے پر بیوروکریٹک پیچیدگیوں کی وجہ سے حکومت پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے آئی ایم ایف سے 26ارب روپے ٹیکس چھوٹ مانگے گی، نئے طیاروں کی شمولیت پر جی ایس ٹی سے استثنیٰ بھی مطالبات میں شامل ہے حکومت کو 45ارب روپے کی منفی ایکویٹی سے بھی نمٹنا ہو گا، آئی ایم ایف کی جانب سے مالیاتی ڈھانچے کی منظوری ضروری ہے ان خیالات کا اظہار وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے سینیٹ کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بیوروکریٹک پیچیدگیاں سرمایہ کاروں نے سہولتیں مانگ لیں، وزیر نجکاری نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ معاملہ اہم بین الاقوامی راہنمائوں کے ساتھ اٹھایا ہے، آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا نجکاری سیکرٹری عثمان اختر نے کہا کہ ہم نے 15نومبر کو آئی ایم ایف سے ملاقات کی اور ٹیکس چھوٹ اور منفی ایکویٹی کے مسائل پر بات کی آئی ایم ایف نے جلد جواب دینے کی یقین دہانی کرائی ہے سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ پی آئی اے کی کامیاب نجکاری سے ملک میں صنعت ومعیشت کو فروغ حاصل ہو گا تاہم انہوں نے اس عمل میں تاخیر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلال چوہدری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نجکاری کے عمل کو تیز کرے اور پی آئی اے کے مسائل فوری حل کرے انہوں نے کہا کہ اگر آپ زیادہ زور دیکر حکومت کو قائل کرتے تو یہ عمل بہت پہلے مکمل ہو سکتا تھا انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جو ادارے ملک کی معیشت کیلئے اہم ہیں انہیں مناسب دیکھ بھال اور منصوبہ بندی کے بغیر بند نہیں کیا جانا چاہیے، وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کرنی ہے تو دل بڑا رکھنا ہو گا اس ادارے کو دوبارہ نجکاری کی طرف لیجائیں گے پہلے کنسلٹنٹ نے مطمئن نہیں کیا جبکہ حکام نے بتایا کہ پہلے تین ڈیسکوز کی نجکاری کا عمل 31جنوری 2025ء تک مکمل ہو جائے گا” اس وقت ملک کو معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے نجکاری عمل پر زیادہ فوکس کرنے کی ضرورت ہے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی بازگشت گذشتہ دس پندرہ برسوں سے سنی جا رہی ہے مگر اس عمل کو سست رفتاری سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کہیں نہ کہیں کوئی جھول ضرور ہے پی آئی اے جیسے بہت بڑے ادارے کی نجکاری کے بارے میں بہت کام کیا گیا مگر جب بولیوں کا موقع آیا تو معاملہ سرد ہو گیا کیونکہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کے لیے جو اصول وضوابط بنائے گئے ان پر کوئی بولی دہندہ مطمئن نہیں ہو سکے تھے وزیر نجکاری کے مطابق 28نومبر 2023ء کو پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع کیا گیا پی آئی اے میں ٹوٹل 830 ارب نقصانات تھے ہم نے ادارہ کے 623 ارب بقایاجات ہولڈ کمپنی میں پارک کیا ہم نے باقی 200 ارب کو پی آئی اے کے ساتھ ہی پارک کیا پی آئی اے میں نجکاری کے وقت 45ارب کا خسارہ تھا، پی آئی اے کے 600 ارب کا قرض پارک کیا گیا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سارا قرض پارک کیوں کیا گیا پی آئی اے کی نجکاری جی ٹو جی جا سکتے ہیں ابھی پی آئی اے کے روٹس بھی نہیں کھلے پی آئی اے کی براہ راست فلائیٹ مختلف ممالک کو جا سکیں گی پی آئی اے لینے والے کہتے ہیں کہ 18فی صد جی ایس ٹی کو کم کیا جائے وزیر نجکاری نے کہا جو لوگ ادارہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے ان کے خدشات دور نہ کرنا بھی ادارہ کی خریداری میں سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کا باعث ہے،، پی آئی اے کی نجکاری میں ناکامی افسوسناک ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بڑے ادارے کو نجی شعبے کے حوالے سے کرنے میں جو مشکلات سامنے آ رہی ہیں ان پر غور وخوض کر کے کم کرے تاکہ خسارے میں چلنے والے اس ادارہ کو احسن طریقہ سے پرائیویٹ کیا جا سکے اگر حکومت کو آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں مدد لینے اور چھوٹ مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو اس پر ضرور بات کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں پی آئی اے کو خسارہ سے نکالنے کیلئے حکومت کو اربوں روپے کا بیل آئوٹ پیکج دینے سے چھٹکارہ حاصل ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں