28

PTi سے مذاکرات کے معاملے پر حکمران اتحاد کی رائے تقسیم

اسلام آباد (بیوروچیف)پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ متنازع مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا چاہیے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے ساتھ مذاکرات کا خیال پہلے ہی مسترد کیا جاچکا ہے۔ اس تناظر میں حکمران اتحاد فی الوقت پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کرنے پر منقسم دکھائی دیتا ہے۔مسلم لیگ (ن)خود اس معاملے پر منقسم ہے’ پارٹی رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی پرزور حمایت کی ہے جبکہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس خیال کی مخالفت کر رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی (ف)کی جانب سے میں پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے لیے لچک دکھانے میں ایسے وقت میں گریز کیا جارہا ہے جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اس بات پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں کہ وہ خود نہیں لیکن ان کی پارٹی کے لوگ حکومت کے ساتھ انتخابات اور تباہ حال معیشت سمیت دیگر اہم قومی معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور صدر پیپلزپارٹی (پارلیمانی)آصف علی زرداری کی زیرصدارت پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پارٹی رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مذاکرات کا دروازہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے، اس مقصد کے لیے پارٹی نے سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت کے معاملے پر مشترکہ پوزیشن لینے کے لیے مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے حالیہ عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کی بہت سی وجوہات ہیں اور عدالت کے اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلے پر ترجیح دینا واحد وجہ نہیں ہے تاہم یہ پوزیشن قانونی، اخلاقی اور سیاسی طور پر ناقابل قبول ہے اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی رائے ہے کہ عدلیہ کی عزت اور وقار کو کسی طور پر مجروح نہیں ہونے دیا جانا چاہیے، اس لیے ضروری یہ ہے کہ معزز عدالت کے متعدد متضاد فیصلوں کا معاملہ جلد از جلد حل کیا جائے۔پیپلزپارٹی کا یہ بھی ماننا ہے کہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے لیے تمام اسمبلیوں کے انتخابات آئین میں دی گئی تاریخ کے مطابق ایک ہی دن منعقد کروائے جائیں، پیپلزپارٹی اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد میں آئین کی طے کردہ مدت سے زیادہ کسی صورت تاخیر کو برداشت نہیں کرے گی۔قبل ازیں مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے بات چیت ضروری ہے، حکومت کو عدلیہ اور پی ٹی آئی کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری لڑائی ختم کردینی چاہیے۔انہوں نے زور دیا کہ آئین کی پاسداری کی جائے اور انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں، سیاسی قوتوں کو باہر سے فون کال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ غیر ضروری لڑائیوں میں نہ پڑیں کیونکہ اداروں کے خلاف جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 90 کے تحت حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تعمیل کی پابند ہے اور آرٹیکل 68 کے تحت پارلیمنٹ میں اعلی عدالتوں کے ججوں کے فرائض کی انجام دہی پر بحث کرنے پر پابندی ہے۔دریں اثنا امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے سیرت النبی ۖ کانفرنس میں کہا کہ ملک میں غیر یقینی صورتحال کو روکنے کے لیے جولائی 2023 میں عام انتخابات کرائے جائیں۔انہوں نے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی دونوں کو سیاسی پولرائزیشن کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کے نتیجے میں اداروں کے اندر اور ان کے درمیان تقسیم پیدا ہوئی۔انہوں نے کہا کہ اگر حکوپت اور اپوزیشن اِس کمزور جمہوریت کو بچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو دونوں کو انتخابی ایجنڈے پر بات چیت شروع کرنی چاہیے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومی اداروں بالخصوص عدلیہ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن کو قوم اور ملک کے بہترین مفاد میں غیر جانبدار رہنا چاہیے، غیر یقینی صورتحال پر قابو پانے کے لیے عام انتخابات جولائی 2023 میں کرائے جائیں۔حال ہی میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن)پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گی، اس موقف کی وزیراعظم شہباز شریف بھی توثیق کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں رہنما جے یو آئی (ف)مولانا اسد محمود نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اعلان کیا کہ ہماری جماعت کبھی بھی عمران خان کے ساتھ ایک میز پر نہیں بیٹھے گی جو قوم کا مجرم ہے۔انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم عمران خان کے ساتھ مذاکرات اور انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے نہیں بیٹھیں گے، وہ مجرم ہے اور اس پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے، یہ میری پارٹی کا موقف ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ججز پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ عمران خان نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور آج وہ ججوں کو ہی پیارے ہوگئے ہیں۔قبل ازیں 3 اپریل کو حکمران اتحاد میں شامل 6 شراکت داروں نے سول سوسائٹی کی جانب سے ثالث کا کردار ادا کرنے والے کچھ نمائندگان کے ساتھ ملاقات کے بعد تمام سیاسی قوتوں پر زور دیا تھا کہ وہ مل بیٹھ کر موجودہ سیاسی، معاشی اور عدالتی بحران کا پرامن حل تلاش کریں۔نیشنل پریس کلب میں اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں جاری مشترکہ بیان کے مطابق انہوں نے اس مقصد کے لیے کثیر الجماعتی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں