31

آتش ِ شوق

تحریر ۔۔ایم سرور صدیقی
سرزمین سے بڑی مہکی بھینی بھینی خوشبو آرہی ہے یقینا یہ ایک مقدس جگہ ہے اس کے ہمراہ الہامی کتابوں کے علوم کے ماہر ایک عالم نے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انہوں نے پڑھی تھیں یہ ساری باتیں بادشاہ کے گوش گذارکردیں کہ اللہ کے آخری نبی ۖ کیجائے ولادت ہے اس دھرتی کی جتنی بھی تکریم کی جائے کم ہے
بادشاہ نے ان سب سے باہم عہد کرلیاکہ ہم یہاں پوری زندگی بسرکردینگے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو ہم ضرور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف کی زیارت سے مشرف ہوں گے ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی ہوگی کہ وہ اللہ کے آخری نبی کے عہدمیں آنکھ کھولیں گے جو ہمار ی نجات کے لئے کافی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے تبع اول حمیری کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اس نے بھرائی ہوئے لہجے میں کاش میں بھی اپنی آنکھوں سے اس مقدس شخصیت کو دیکھ پاتا اور اس کے قدموںکی دھول کو اپنی چشم ِپرنم کا سرمہ بنا لیتا اے کاش۔۔ اے کاش آتش ِ شوق سے اس کا سینہ جو کچھ دیر پہلے سلگ رہا تھا محبوب ِ خدا کانادیدہ سراپا تصورمیں آیا توجیسے ٹھنڈ سی پڑگئی
بادشاہ نے ان عالموں،حکیموں اور طبیبوں کیلئے 400 مکان بنوائے اور الہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کیلئے مکان کے پاس حضور کیلئے دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو میری خواہش ہے یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کو اشرفیوںکی تھیلیاں دے کر کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھرالہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمہیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتیٰ کہ سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کریمن کا بادشاہ تْبّع حمیری اپنے وطن لوٹ گیا
آج مدینہ منورہ میں خاصی چہل پہل تھی لگتا تھا جیسے عیدکا سماں ہو پیاری پیاری بچیاں دف بجاکرخوشی کااظہارکررہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں انا بدرعلینا کیونکہ آج سرکار ِ دوعالم ۖ کی آمد آمدتھی سینکڑوں آنکھیں آپ کا رخ انور دیکھنے کو بے تاب تھیں جب اللہ کے آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آنے لگے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا اہتمام کر رہا تھا اور سب کا یہی اصرار تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ آپ ۖ نے تبسم فرماکرکہا میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھرکے آگے اونٹی بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی اور پھر اونٹی ایک دو منزلہ خوبصورت مکان کے آگے رک گئی ، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع حمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا اسی کے آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟ عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ملاحظہ فرمائیںشاہ یمن تبع حمیری نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا
”کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی آپ پر ایمان لاکر آپ کی بیعت کرتا ہوں میں صدق ِ دل سے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔”
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے پھرالہامی کتابوں کے علوم کے ماہر عالم کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور ۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع حمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔
حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا حضور نے پڑھ کر فرمایا صالح بھائی تْبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
بحوالہ کْتب(میزان الادیان) (کتاب المْستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر):

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں