23

احتجاجی سیاست ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ (اداریہ)

یوں تو ملکی ترقی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں مگر احتجاجی سیاست سے ملک کو جو نقصان پہنچا ہے وہ شائد کسی اور بحران سے نہیں پہنچ سکا دھرنا اور احتجاجی سیاست نے معیشت’ اقتصادی ترقی کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ملکی سیاسی درجہ حرارت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت احتجاجی سیاست کیلئے نت نئے بہانے تلاش کرنے میں مصروف ہیں مختلف عدالتوں سے بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملنے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ عمران خان کی رہائی جلد ممکن ہے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا پی ٹی آئی قیادت ایک بار پھر احتجاجی سیاست کو زندہ کرنے کے پروگرام بنا رہی ہے حکومت ملک کو معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے کوشاں ہے مگر اپوزیشن حکومت گرانے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے، بدقسمتی سے سیاستدان وطن عزیز کی ترقی عوام کی خوشحالی اور سیاسی ومعاشی استحکام کیلئے مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں انہیں تو صرف اقتدار کی فکر ہے، پاکستان میں اپوزیشن کوئی بھی ہو سب کا مسئلہ ہر دور میں مشترک ہی رہا ہے، اپوزیشن ہر حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کیلئے مستعدد رہتی ہے کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو اپوزیشن میں ہو اور وہ حکومت کو کم ازکم قومی معاملات اور ملکی مسائل پر ہی متحد ہو جائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا حکومت میں آنے والے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور باہر رہ جانے والے بروقت مظلوم کا روپ دھارتے ہوئے کروڑوں انسانوں کے جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں یہ سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا آج بھی جاری ہے، ملک میں غربت بڑھ رہی ہے بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے کاروبار بند ہو رہے ہیں ایک گھر میں ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ افراد کو کئی کئی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، معاشی مشکلات کی وجہ سے انسانوں کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے آمدن اور اخراجات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے اضافی کام کرنا پڑتا ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے معاشی حالات مشکل بن چکے ہیں، آج ہر جگہ سیاسی مسائل پر بحث ہو رہی ہے حکومت مہنگائی میں کمی کے دعوے کر رہی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، ہمارے حکمران اگر ایمانداری کے ساتھ وسائل عوامی فلاح وبہبود کے کاموں پر خرچ کریں تو کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں لا سکتی ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ چل رہا ہے اگر پٹرولیم مصنوعات سستی کی جاتی ہیں تو بجلی مہنگی کر دی جاتی ہے آٹا سستا کرتے ہیں تو گیس مہنگی کر دیتے ہیں ایک طرف حکومت عوام کو سہولت دیتی ہے تو دوسری طرف سے کسر پوری کر لیتی ہے جہاں رعائت دی جاتی ہے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جہاں عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا اصل سہولت تو یہ ہے کہ آمد واخراجات میں توازن قائم کرنے کی حکمت عملی پر کام ہو اور لوگوں کو پائیدار سہولت میسر ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا اپوزیشن احتجاجی سیاست پر زور لگا رہی ہے حالانکہ اپوزیشن اپنے مسائل کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس کا حل تلاش کر سکتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ ملک میں دھرنا اور احتجاجی سیاست کا ایسا رواج چل پڑا ہے کہ اس کے آگے بند باندھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے ان حالات میں جب ملک میں افراتفری کا عالم ہو تو سرمایہ کاری کیسے ہو گی پاکستان کی سیاسی قیادت بدقسمتی سے قومی معاملات پر بھی تقسیم ہے ایسے میں ملک میں کسی بھی قسم کے استحکام کا خواب تو خواب ہی رہے گا، اگر سیاستدانوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا اور ملک میں افراتفری کی سیاست کا راستہ نہ روکا تو ملک کی ترقی قوم کی خوشحالی ممکن نہیں بنائی جا سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ احتجاجی سیاست’ افراتفری پھیلانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک میز پر بیٹھ کر ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور اسے معاشی طور پر مستحکم بنانے کیلئے قابل قبول حل نکالیں اور اس پر عمل کیا جائے بصورت دیگر حالات بدتر ہو جائیں گے جو کسی صورت بھی ملک وقوم کے لیے فائدہ مند نہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں