تحریر: میاں محمد اشرف کمالوی
گزشتہ دنوں اپنے ایک ہمسائے کی عیادت کے لئے مجھے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچنا تھا، میرے گھر سے ہسپتال کا راستہ تقریبا بیس پچیس منٹ کا ہوگا، لیکن مجھے ہسپتال پہنچتے پہنچتے دو اڑھائی گھنٹے طویل سفر سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ روداد کچھ یوں ہے کہ راستے میں شہر کا ایک بڑا اور کھلا چوراہا پڑتا ہے، عام طور پر یہاں ٹریفک بلاک نہیں ہوا کرتی، تاہم کبھی کبھار جب کوئی غیر معمولی واقعہ یا خدانخواستہ حادثہ پیش آجائے، تو پھر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی لمبی قطاریں پیدل چلنے والوں کا چلنا بھی دشوار بنا دیتی ہیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا، میری گاڑی چاروں طرف سے ٹریفک کے اژدھام میں پھنس چکی تھی، آگے جانے یا پیچھے مڑنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے، ہاں البتہ ہر کوئی اللہ تعالی کے حضور دست دعا دراز کیے ہوئے تھا کہ کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آ گیا ہو، جوں کی رفتار سے رینگتی ہوئی میری گاڑی جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ ٹریفک کے بری طرح بلاک ہو جانے کی وجہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ غریب و مجبور اور بے بس و لاچار عوام کا وہ جم غفیر تھا، جو مہنگائی کے اس دور میں سستے مگر ناقص آٹے کے ٹرک کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا، غربت کے مارے پاکستانی قوم کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین، معمولی بچت کرنے کی تگ و دو میں ایک دوسرے پر جھپٹتے پلٹتے۔ گرتے پڑتے سرکاری آٹے کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر دل کسی انجانے خوف سے کانپ اٹھا کیوں کہ ابھی چند ہی یوم پہلے سندھ کے علاقے میرپور خاص میں ایک مزدور سستے آٹے کے لیے لگی بھوکوں کی لمبی لائن میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث جان کی بازی بھی لگا چکا ہے، گویا وہ روٹی جیسی بنیادی ضرورت کے حصول کے لئے پہلا پاکستانی شہید قرار دیا جا سکتا ہے، حکمرانوں کی ناقص و عوام دشمن پالیسیوں پر بھی سخت افسوس ہوا، کیونکہ گزشتہ سالوں میں ایسی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ کئی اضلاع میں محکمہ خوراک کے غیر ذمہ دار افسروں کی غفلت کے باعث ہزاروں ٹن گندم سرکاری گوداموں میں ہی گل سڑ کر ضائع ہوتی رہی ہے، اور گزشتہ پندرہ سولہ سالوں سے بے تحاشا زرعی زمینیں ڈویلپرز مافیا کے ہاتھوں رہائشی سکیموں کی نذر ہو چکی ہیں۔ حکومت کے ارباب بست و کشاد چونکہ خود ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں، لہذا قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے سامنے بے بس و مجبور نظر آتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کے مطابق گندم بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس لئے ہر سال لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنے کے باوجود، اشیائے خورد و نوش کے لیے عوام کو ذلیل و رسوا ہونا پڑ رہا ہے، خیر کف افسوس ملتا ہوا آگے بڑھا تو ایک جگہ پھر لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہوا پایا۔ حال احوال جاننے کے لئے گاڑی سائیڈ پر پارک کرکے آگے بڑھا تو انکشاف ہوا کہ یہ تو ایک بڑا یوٹیلٹی سٹور ہے۔ کچھ مرد و خواتین سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ تقریبا تین گھنٹے کے بعد کوئی فرد پرچیز کاؤنٹر پر پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے، کم تعلیم یافتہ، ان پڑھ عوام جدید ٹیکنالوجی سے ناواقفیت کے باعث اکثر اپنے شناختی کارڈ سے پرچیز کوڈ حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے کاونٹر پر بیٹھے فرعون نما عملہ کی فرعونیت کا شکار ہو کر بغیر کچھ خریدے ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ یا اگر پرچیز کوڈ کمپیوٹر پر ظاہر ہو بھی جائے تو انہیں اشد ضرورت کی ایک دو چیزوں کے ساتھ کئی غیر ضروری اشیاء بھی خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے غریب، مزدور دیہاڑی دار طبقہ بلکہ سفید پوش عوام بھی اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس تو بڑی مشکل سے اپنی انتہائی ضرورت کی ایک دو اشیاء کی خریداری کے پیسے ہی ہوتے ہیں، غیر ضروری سامان کیسے خرید سکتے ہیں، ?ناچار اپنے کئی گھنٹے برباد کرنے کے بعد حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہوئے مایوس و نامراد لوٹ جاتے ہیں، لیجیئیاب میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں داخل ہوا چاہتا ہوں، چونکہ یہ گورنمنٹ سیکٹر میں چلنے والا ایک قدیم ہسپتال ہے، لہذا مریضوں کی اکثریت کی شکل و شباہت سے ہی ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کا تعلق معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم و محروم اس طبقہ سے ہے، جنہیں اپنی روزمرہ کی ضروریات پورا کرنے کیلئے اور اپنی بڑھتی ہوئی پیاس کو بجھانے کیلئے ہر روز ایک نیا کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے چند لواحقین سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں آنیوالے بے تحاشہ مریضوں کی اکثریت کا تعلق انتہائی کم وسائل کے حامل یا سفید پوش طبقہ سے ہے۔۔۔(جاری ہے)
38