33

بجلی صارفین کو ایک اوربڑا جھٹکا

اسلام آباد(بیورو چیف)حکومت نے نظر ثانی شدہ سرکلر ڈیبٹ مینجمنٹ پلان(سی ڈی ایم پی)تیار کرلیا ہے تاکہ گردشی قرضے کی موجودہ بڑی رقم کو کم کیا جاسکے، اس کے تحت بجلی کی قیمتوں میں 6.32 روپے فی یونٹ اضافے کیساتھ ساتھ مختلف قسم کے اقدامات شامل ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں 6.32 روپے فی یونٹ اضافے کے باوجود سی ڈی ایم پی کے نظر ثانی شدہ اندازے کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 675 ارب روپے کی اضافی سبسڈی کی ضرورت ہوگی۔ سی ڈی ایم پی کا نظر ثانی شدہ منصوبے کا تبادلہ پاکستان کے دورے پر موجود آئی ایم ایف وفد کیساتھ بھی کیا جائے گا جس کے تحت حکومت گردشی قرضے کو رواں مالی سال کے دوران 1526 ارب روپے سے کم کرکے 952 ارب روپے تک لایا جائے گا۔ کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسمنٹ(کیو ٹی اے)کے تحت حکومت بجلی کی قیمتوں میں 5.54 روپے فی یونٹ اضافہ کرکے 73 ارب روپے اضافی جمع کرنے کی خواہاں ہے، اسی طرح پاور ہولڈنگ لمیٹیڈ(پی ایچ ایل)کے ریکوری سرچارج کے نام سے فی یونٹ بجلی پر 68 پیسے کا سرچارج لگایا جائے گا۔ پاور ہولڈنگ کمپنی(پی ایچ ایل)کی ریکورٹی کے نام پر سرچارج کا منصوبہ بنالیا گیا ہے جس سے 68 ارب روپے جمع ہوں گے۔ اسی لئے یہ سرچارج لگایا جانا بھی زیر غور ہے۔ دریں اثناء آئی ایم ایف نے 300یونٹس تک ریلیف کی درخواست ماننے سے انکار کر دیا،بجلی کے نرخ فوری بڑھانے کا مطالبہ کر دیا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات ہوئے،توانائی کا شعبہ معاشی ٹیم کیلئے درد سر بن گیا، آئی ایم ایف نے کہاکہ سالانہ 500 ارب روپے گردشی قرض بڑھنے سے معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ ذرائع وزارت خزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخ فوری بڑھانے کا مطالبہ ہے،ذرائع کاکہناہے کہ آئی ایم ایف نے 300 یونٹس تک ریلیف کی درخواست ماننے سے انکار کردیا،آئی ایم ایف نے بجلی کی سبسڈی 100 یونٹس تک رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ آئی ایم ایف نے وزارت توانائی سے بجلی نقصانات کم کرنے کیلئے روڈ میپ مانگ لیا،بجلی کے نقصانات کم کرنے کیلئے وزارت توانائی حکام سے جامع پالیسی بھی طلب کرلی۔ علاوہ ازیں رواں سال 2023 کا پہلا مہینہ جنوری اختتام پذیر ہوگیا، یہ مہینہ اس لحاظ سے سرمایہ کاروں کیلئے مشکل ثابت ہوا کہ اس میں ایک جانب سیاسی میدان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہونے سے سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا جبکہ دوسری جانب بیرونی قرضوں کی واپسی اور گرتے زرمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے ملکی معیشت کے مستقبل پر سوالیہ نشان مزید گہرا ہوگیا، اس تناظر میں سرمایہ کاروں کیلئے حصص کی خریداری، فروخت، شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ پریشانی کا باعث بنی رہی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں