اسلام آباد(بیوروچیف)پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے عدم تعاون، تاجروں کے اعتراضات اور سندھ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث وفاقی حکومت کی توانائی بچت کے لیے قومی مہم کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔تاجر انجمنوں کا کہنا ہے کہ ملک کی خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے بازاروں میں کاروباری سرگرمیاں ایک اندازے کے مطابق 40 فیصد تک محدود ہوگئی ہیں۔ دکاندار خریداروں کے منتظر رہتے ہیں، مہنگائی اور قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے خریدار صرف کھانے پینے اور انتہائی ضرورت کی اشیاء خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو بڑے پیمانے پر ملازمین کی چھانٹی شروع ہوسکتی ہے ، اس لیے حکومت ملک میں معیشت کو بچانے کے لیے معاشی ایمرجنسی لگائے ۔ خراب معاشی صورت حال کے اثرات ہر کاروبار پر پڑے ہیں، کاروباری سرگرمیاں محدود تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔دکانداروں نے بتایا کہ اس وقت مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی پہلی ترجیح آٹا،دال، چاول، گھی، تیل،چینی،پتی، دالیں اور اشیائے خورونوش خریدنا ہے ۔ لوگ ماہانہ اور ہفتہ وار کی بجائے دو سے تین دن یا یومیہ بنیاد پر راشن خرید رہے ہیں۔ریسٹورنٹ مالکان نے بتایا کہ جو گھرانے خوش حال ہیں، وہ تو بآسانی ہوٹلنگ کر لیتے ہیں مگر مہنگائی کے باعث متوسط اور غریب طبقہ تو باہر کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔آل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے بتایا کہ توانائی کے حوالے سے حکومت کی قومی بچت مہم دو صوبوں کے عدم تعاون کے باعث ناکام ہوگئی۔کاروباری سرگرمیاں 40 فیصد تک محدود ہوگئی ہیں۔ اگر رات 8 بجے مارکیٹیں اور بازار بند کرنے کے فیصلے پر عمل ہوتا تو کاروباری سرگرمیاں گھٹ کر صرف 20 فیصد رہ جاتیں۔وزیر محنت سندھ سعید غنی نے بتایا کہ توانائی بچت کے حوالے سے وفاقی حکومت کے فیصلوں پر سندھ حکومت نے تاجر اور کاروباری انجمنوں سے مشاورت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ بازار 9 بجے تک کھولے جائیں۔ ان تمام تجاویز سے وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد کہا گیا کہ بازار ساڑھے 8 بجے بند کئے جائیں، تاہم دو صوبوں کے اعتراضات اور فیصلے پر عمل نہ کرنے کے باعث یہ معاملہ التوا کا شکار ہوگیا۔
34