32

ذہنی امراض اور مینٹل ہسپتال

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
ایک وقت تھا جب ذہنی دبا اور ڈپریشن کو امراض سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ غربت اور افلاس کی ماری بیچاری خلقت مسلسل ذہنی تنا ئوکا شکار رہتی تھی۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ اس صورتحال کی عادی ہوجاتی تھی۔ ایسے افراد کے چہرے اکثر اترے اترے رہتے تھے اور ان کی باتوں سے یوں لگتا تھا جیسے ان کی مت ماری گئی ہو۔ ایسی صورتحال مجموعی طور پر تھی متمول طبقہ عیش کرتا تھا اور طیش میں آکر مذکورہ افراد کا استحصال کررہا ہوتا تھا۔ بڑے کے سامنے بات کرنا بے ادبی بھی تھی اور ویسے بھی ایسا کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہ تھی۔ زبان پر کنٹرول کرنا حکمت ودانائی کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ جہالت کو حکمت کے معنی پہنا دیئے جاتے تھے۔ زیادہ تر معاشرہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کے مرجاتا تھا۔ اگر کوئی شدید دبا کی وجہ سے پھٹ پڑتا تھا تو کریک قرار دیا جاتا تھا اور اگر بہت ہی زیادہ صورتحال خراب ہوجاتی تو جن بابا کی کہانی اور پھر عامل کے غیر عقلی اور غیر فطری عمل۔ ہمارا معاشرہ میل ڈومینیٹڈ ہے اس لئے جن ذہنی مسائل کا سامنا عورتوں کو ہوتا تھا اس کی آج کے زمانے میں مثال نہیں ملتی ہے۔ لہذا جن بھوت بھی زیادہ عورتوں میں نمودار ہوتے تھے عجیب مناظراور مضحکہ خیز طریقہ علاج۔ عامل اور جھوٹے پیر فقیر ٹکا کر پیسے بھی لیتے تھے مردوزن پر تشدد بھی کرتے تھے اور “بھونڈی” کا بھی موقعہ ضائع نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ جاتے جاتے عورتوں کو بھی ساتھ ہی لے جاتے تھے اور یوں بسا اوقات اچھے اچھے گھروں کو بھی دن دیہاڑے سنھ لگ جاتی تھی۔ خیر اورشر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یوں شریر لوگ موج میلہ کرتے ہیں۔ میلے ٹھیلے ہی تھے جو ذہنی دبا کم کرنے کا واحد ذریعہ تھے ان سے سادہ لوح لوگوں کو ملائیت ویسے ہی ڈرا دیتی تھی۔ خوف میں چلانا بھی ایک فطری امر ہے جبکہ ہماری کثیر آبادی غیر فطری کاموں پر ہمیشہ سے ہی لگی رہی ہے۔ اور ہم نے فطرت کا پابند نباتات و حیوانات کو سمجھ رکھا ہے۔ غیبت، حسد، بغض، گالم گلوچ، خون خرابہ، اباتبا بولنا، منشیات کا استعمال، جادو ٹونہ، سازشوں کا جال بننا وغیرہ وغیرہ ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں اور تو اور ہم اپنی انا کی تسکین کے لئے دو چار بندے تو ویسے ہی پھڑکا دیتے ہیں اور خود بھی شریکے کے ہاتھوں قربان ہوسکتے ہیں۔ چوہدری قربان کی اللہ حیاتی کرے وہ اپنی عزت کے لئے کسی کی بھی عزت سے کھیل سکتا ہے۔ ایسے منہ زور گھوڑے کو لگام دینے والے جگے ذہنی دبا کا شکار نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوں گے۔ صورت حال جب کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے تو بندہ پاگل قرار دیا جاتا ہے اور پاگل خانے میں بھیج کر اس کا مستقل علاج اور وہ بھی ڈانگوں سوٹوں سے۔ خدا کی پناہ انسانی رویوں، معاشی عدم استحکام، معاشرتی ناہمواریوں، طبقاتی کشمکش،سیاسی غیر یقینی صورتحال اور عدم برداشت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں ہر شخص پریشان ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی نے ہمارے مستقبل کی منصوبہ سازی کو نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا ہے۔ ہمیں بس ایک ہی غم کھائے جارہا ہے کہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا۔ ماضی ہمارا مایوس کن ہے حال میں ہم سوائے غیر ضروری سوچ بچار کے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں اور پھر اس تناظر میں مستقبل میں کھلنے والے گلوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوں مایوسیوں پریشانیوں اور ناکامیوں کے شکنجوں نے ہمیں پوری طرح جکڑ رکھا ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا روزانہ کی بنیاد پر آئینہ دکھا کر ہمیں اپنا اصل چہرہ دیکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔اس کا فطری نتیجہ ڈپریشن، بے چینی اور نفسیاتی امراض ہیں۔ معاشرہ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہمارا ہر دوسرا شخص ذہنی مریض ہے۔ خوف،خوف اور خوف۔ کوئی میرے خلاف سازش نہ کردے۔ کوئی مجھے مار نہ دے۔ کہیں میرے ساتھ فراڈ نہ ہوجائے۔ کہیں میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جاوں۔ میری جائیدادوں پر قبضے نہ ہو جائیں، میں اور میرے متعلقین زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں، مجھ سے میرے مراتب و مناصب چھین نہ لئے جائیں اور کہیں مجھے ذلیل و رسوا نہ کردیا جائے۔ شیزوفرینیا کی علامات میں خوف کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان کی آبادی کا 34 فیصد حصہ ذہنی دباو اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان میں تیس ہزار ذہنی مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ ذہنی امراض میں مینٹل ڈس آرڈر کی شرح 12۔7 فیصد سالانہ ہے۔ قومی ہیلتھ کمیشن سے رجسٹرڈ ان امراض کے معالجین کی کل تعداد937ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں ماہرین نفسیات اور دماغی امراض کے ماہرین کی کل تعداد 412 ہے سندھ میں 235، کے پی کے میں 127، بلوچستان میں 43 اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 18 ماہرین ہیں۔ ڈپریشن کی سالانہ شرح 23۔3 فیصد اور بے چینی کی شرح17۔3 فیصد ہے۔ شیزوفرینیا کے مریضوں کی سالانہ شرح24۔0فیصد ہے ‘ہمارا دین ہمیں سوچ بچار کا درس دیتا ہے اور ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں اور جب ہم سے ہاتھ ہوجاتا ہے تو ہم نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ انگریز نے ہمارے ہاں بڑے بڑے ادارے بنائے تھے جس میں مینٹل ہسپتال بھی تھا۔ مذکورہ ہسپتال کی عمارت سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی ان کا نفسیاتی امراض پر کتنا فوکس تھا۔ ہم چونکہ روایت پرست لوگ ہیں ہم دیگر معاملات کی طرح ایسے اداروں کو بھی روایتی انداز سے چلا رہے ہیں باقی جہاں برٹش گورنمنٹ چھوڑ گئی تھی مینٹل ہسپتال وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ ہم نے ایک کام ضرور کیا ہے کہ اس میں رتی بھر تبدیلی نہیں کی ہے۔ اس وقت اگر عالمی طور پر دیکھا جائے تو نفسیاتی امراض پر بڑا کام ہورہا ہے۔ بے شمار تحقیقاتی ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ سائیکالوجسٹ سائیکوتھراپی، کونسلنگ اور موٹیویشنل سیشنز سے علاج کرتے ہیں سائیکائٹریسٹ پہلے باقاعدہ ٹیسٹ کروا کر ذہنی امراض کی تشخیص کرتے ہیں پھر ان عوامل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے جو ایسے عوارض کی وجہ بنتے ہیں اور پھر کلینیکل علاج کیا جاتا ہے۔ یہ ایک پورا طریقہ علاج ہے اور اس کو ہم نے عاملوں اور جھوٹے پیروں فقیروں کے حوالے کیا ہوا ہے اور مینٹل ہسپتال کو ہمارے ہاں پاگلوں کی جیل تصور کیا جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ مینٹل ہسپتال کی عمارت کا صحیح استعمال کیا جائے اور وہاں ان نفسیاتی عوارض کا ایک تحقیقاتی ادارہ قائم کیا جائے جہاں اس سلسلے میں سائیکالوجسٹ اور سائیکائٹریسٹ کی تعلیم وتربیت کی جائے اور ان امراض کے شکار لوگوں کا جدید تقاضوں کے مطابق علاج کیا جائے تاکہ ہماری افرادی قوت کو معاشرے کے لئے کارآمد اور مفید بنایا جا سکے۔ گلاب دیوی ہسپتال اور گنگا رام ہسپتال جیسے اداروں پر بھی ان کی تنظیم نو کے سلسلے میں توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ صحت مند معاشرہ ہی ہمارے جملہ مسائل کا واحد حل ہے۔ آئیں مثبت انداز سے سوچنے کے بارے میں عہد کریں اور منفی سوچ کے مردہ گھوڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیں۔ یہی آج کی غیر یقینی صورتحال کا علاج ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں