221

سارہ جنگ عظیم اول کی اصل فاتح

تحریر: ملک بلال لطیف
سارہ1885 میں جرمنی کے ایک چھوٹے سے گائوں مرگینتھ میں پیدا ہوئی۔ وہ پیدائشی طور پر ہاتھ اور پاؤں سے معذور تھی۔ پانچ برس کی ہوئی تو والدین کو ایک کار حاد ثے میں کھو دیا۔ اب اس کا واحد سہارا اس کی کمزور بوڑھی دادی تھی، جس نے اس کی پرورش کی۔ سارہ کا بچپن مالی پریشانیوں میںاور جوانی بے آسرا گزری۔ جسمانی معذوری کی وجہ سے وہ ہمیشہ سماجی تعصب کا شکار رہی۔ دوسری طرف قدرت نے اس کو بے شمار غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازرکھا تھا ۔ جیسا کہ برداشت اور حوصلہ کا مادہ’اس میں عام لوگوں سے کئی گنا زیادہ تھا۔ یاداشت ایسی تھی کہ دس سال پرانی بات تو ایسے دہرا لیتی تھی جیسے کل کا واقعہ ہو۔ کتاب پڑھتی بعد میں پہلے حفظ کر لیتی۔ اسے کم وسائل میں بھی کمال کردیکھانے کا ہنر آتا تھا۔ سارہ کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کابہت شوق تھا۔ وہ ڈاکٹر بنے کا خواب لے کر سوتی اور اٹھتی تھی۔اور اس خواب نے اسے کتابیں پڑھنے اور خریدنے کے عشق میں مبتلا کردیا۔سارا دن لائبریری میں گزارتی اور درجنوں کتابیں ایک ہی ہفتے میں پڑھ لیتی ۔ سارہ کی انتھک محنت اور خود اعتمادی سے وہ دن بھی آیا ‘جب وہ ڈاکٹر بنی اور بیسوں کتابیں بھی تحریر کیں۔ محنت کا تو جیسے اسے بخار تھا۔ سارا دن میڈیکل یونیورسٹی میں لیکچر دیتی اور شام کو پرائیویٹ ڈسپنسری میں مریضوں کا مفت علاج ومعالجہ کرتی۔ شادی ہوئی تواللہ تعالٰی نے بیٹے جیسی نعمت سے نوازا۔سارہ ایک خوش حال اور مطمئن زندگی گزار رہی تھی کہ ایک ایسا واقعہ وقوع پذیرہواکہ جس نے اس سمیت تمام یورپی لوگوں کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ 28June,1914 کو آسٹریاہنگری کا شہزادہ فرانز فرڈینینڈاپنی بیوی کے ساتھ بوسنیا ہرزیگو ینا کے دورے پر تھا، اسی دوران ان دونوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ان کے قتل سے ایک ایسی چنگاری اٹھی’جس نے جنگ عظیم اول شروع کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ دراصل ان کا قاتل19 سالہ نوجوان گوریلو پرنسپ تھا’ جو بوسنیا ہرزیگو ینا کی آسٹریا ہنگری سے آزادی کی تحریک کا حصہ تھا ۔ سربیا جو بوسنیا ہرزیگو ینا سے گہری جغرافیائی ، نسلی اور ثقافتی قربت رکھتا تھا، آزادی کی اس تحریک میں اس کی بھر پورمدد کر رہا تھا۔ آسٹریا ہنگری نے سربیا کو شہزادہ کی موت کا الزام دیتے ہوئے، اس پر 28July,1914 کو حملہ کر دیا اور چند ہی دنوں میں یہ لڑائی جنگ عظیم اول میں بدل گئی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے ان دونوں کی لڑائی کوجنگ عظیم میں بدل دیا ۔ تاریخ نویس اس سوال کے جواب میں چند وجوہات کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بیسوی صدی کے آغاز سے ہی پورا یورپ نفرتوں اور دشمنیوں کی آگ میں جل رہا تھا ۔ یورپی ممالک ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کا جال بن رہے تھے۔ ان ممالک میں زیادہ تر کا طرز حکومت بادشاہت تھا اور ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے حسد میں مبتلا تھا۔ حالانکہ یہ بادشاہ آپس میں قریبی رشتہ دار بھی تھے ۔مثلاً برطانیہ کا بادشاہ جارج پنجم،روسی زار نکولس دوئم اور جرمنی کاقیصر ولہیم دوئم ایک دوسرے کے فرسٹ کزن تھے۔ مورخین کے مطابق جنگ عظیم اول کی پہلی بڑی وجہ یورپی ممالک کے آپس میں پچیدہ اتحاد تھا۔ جرمنی ،آسٹریا ہنگری اور اٹلی نے آپس میںTriple Alliance سائن کررکھا تھا’جس کے مطابق اگر ان میں سے کسی ملک پر اگرکوئی دوسرا ملک حملہ کرتا ہے تو باقی تمام ممالک اس کا ساتھ دیں گے۔ اس طرح کا ایک اتحاد Triple Entete کے نام سے روس، برطانیہ اور فرانس کے درمیان بھی موجود تھا۔روس اور سربیا بھی آپس میں اتحادی تھے۔ اس لئے جب آسٹریا ہنگری نے سربیا پر حملہ کیا تو روس سربیا کی مدد کو آپہنچا ۔جرمنی جو کہ آسٹریا ہنگری کا اتحادی تھا’ اس نے اپنی فوجوںکو روس کے خلاف جنگ میں اُتار دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا یورپ اس جنگ میں کود پڑا۔ جنگ کی دوسری وجہ سامراجیت کو قرار دیا جاتا ہے’ یورپی ممالک دوسرے براعظموں مثلاً ایشیائ، افریقہ وغیرہ میں جا کر وہاں کے وسائل لوٹ رہے تھے ۔ہر ملک زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ جمانا چاہتا تھا اوراس لالچ نے انکو آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔ ان کے علاوہ ہر ملک بڑی بڑی فوجیں اور اسلحے کے انبار جمع کر رہا تھا’ جس سے یورپ میں عدم تحفظ کی فضاء پھیل گئی۔ اس جنگ کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ ان ممالک کے لوگ خود کو برتر اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کو کم تر سمجھتے تھے ۔ہر ملک خیال کرتا تھا کہ یورپ کی حکمرانی کا اصل حق اس کا ہے ۔ ان کی اس خوش فہمی نے ایک ایسی جنگ کو جنم دیا جس نے یورپ کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ”سینٹرل پاورز”کے بلاک کی بڑی طاقتوں سلطنت عثمانیہ، جرمنی اور آسٹریا ہنگری کی امپائرز کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اور 11 نومبر 1918 کو یہ جنگ ” الائیڈ پاورز” ( روس، برطانیہ، امریکہ اور فرانس )کی فتح کے ساتھ اختتام کو پہنچی’ مگر دو کروڑ کے قریب لوگ اس جنگ میں اپنی جان کی قربانی پیش کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہار گئے۔ہر طرف لاشوں کے ڈھیرلگے تھے لیکن دفنانے والا کوئی نہ تھا۔ ان مردہ لاشوں سے ایک ایسا خطرناک وائرس پیدا ہوا جس سے متاثر ہونے والا شخص چندہی گھنٹوں میں گل سڑ جاتا لاکھوں لوگ اس وائرس سے ہلاک ہوئے ‘جس سے یورپ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ بدقسمتی سے یہ وائرس پھیلتا پھیلتا سارہ کے گھر آپہنچا’ پہلے خاوند پھر بیٹا دونوں اس وائرس سے انفیکٹڈ ہوئے اور دونوں اس کی نظروں کے سامنے چند گھنٹوں میں ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بن گے۔مگر وہ چٹان کی طرح کھڑی رہی۔ اگر یہ حادثہ کسی عام شخص کے ساتھ پیش آتا تو وہ شایدہمیشہ کے سکتے میں چلا جاتا یا پھر اسکی زندگی بے معنی ہو جاتی۔ لیکن اسکے برعکس سارہ تو برداشت اور حوصلے کی علامت کا نام تھا ۔اس نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وائرس کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے جرمن حکومت کے زیر نگران ایک لیبارٹری جوائن کی جواس وائرس کا اینٹی وائرس بنانے پر کام کررہی تھی۔ اس وائرس کا اینٹی ڈوٹ بنانے کیلئے سارہ نے دن رات ایک کر دیا ۔ وہ اس مقصد میں اس طرح مگن تھی کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے اس کے جوش اور ہمت کو دیکھ کردھنگ تھے۔ بس پھر اس اکیلی لڑکی نے اپنی محنت اور جذبہ سے وہ کردیکھایا جو لاکھوں یورپی سائنسدان مل کر بھی نہ کر سکے ۔اس نے وائرس کا اینٹی وائرس بھی بنایا اور اس کا کامیاب تجربہ بھی کیا۔ مگر افسوس اسی دوران وہ بھی اس وائرس سے متاثر ہوگی اور اسکا بنایا گیا اینٹی وائرس پہلے سے متاثرہ انسان پربے اثر تھا ۔سارہ اس دنیا سے تو چلی گی مگر پورا یورپ اسکے تابوت کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا کہ کیسے ایک معذور اورکمزور جسم لڑکی نے وہ کر دکھایا’ جس کے سامنے دنیا کی سپر پاورز بھی بے بس نظر آرہی تھیں۔دراصل سارہ جیسے لوگ حالات اور وسائل کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ حالات اور وسائل ان کے تابع ہوتے ہیں۔یہ لوگ حالات کے آگے دبنے کی بجائے اس کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کرتے ہیں۔ ان کی محنت اور جذبہ دیکھ کر قدرت کی تمام طاقتیں ان کی مدد کو آپہنچتی ہیں ۔حالات نارمل ہوں یا جنگ عظیم جیسے ان کے حوصلے بلند رہتے ہیں۔ان کے پائوں کسی صورت لڑکھڑاتے نہیں۔یہ لوگ دنیا میں آتے ہیں اور ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں’جن سے صدیوں تک لوگ مستفید ہوتے ہیں۔دیکھاجائے اس جنگ کے بعد تقریبا پورا یورپ تباہ ہوچکا تھا’فاتح اور مغلوب میں کوئی تمیز نہیں رہی تھی۔ دوسری طرف پورا یورپ سارہ کی بہادری کے گیت گنگنارہاتھا۔اور یقینااس جنگ کی اصل فاتح سارہ تھی ‘جس نے اپنی جان کے اوپر کروڑں لوگوں کی جان کو ترجیح دی۔
(نوٹ: سارہ محض ایک افسانوی کردار ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں