44

صوبائی اسمبلیوں کے نتائج قومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے اہم

اسلام آباد(بیوروچیف)پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے اور حکمران اتحاد کی جانب سے قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی مدت مکمل کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ دو صوبوں میں انتخابات ایسے وقت میں ہوں گے جب وفاقی حکومت موجود ہوگی۔آئینی اعتبار سے بظاہر اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور انتخابات پر اثرانداز ہونے کی حکومتوں کی کوششوں کی وجہ سے اس پیش رفت کواہم سمجھا جا رہا ہے۔بعض حلقوں کی جانب سے وفاق میں حکمران اتحاد کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیاںتحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے پہلے صوبائی اسمبلیوں اور بعد میںقومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانامشکل ہو گا۔جو جماعت بھی پہلے مرحلے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جیتے گی اگلے مرحلے میں اس کی جیت کے امکانات بھی زیادہ واضح ہو جائیں گے۔کنور دلشاد احمد کا کہنا تھا کہ اس کے پاکستان کی وحدت و سالمیت پر بڑے گہرے اثرات پڑیں گے۔ کیونکہ وفاق میں جو اسمبلی برقرار رہے گی اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کیئر ٹیکر سسٹم کے تحت انتخابات ہوں گے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ جب پنجاب میں صوبائی الیکشن ہوں گے یا خیبرپختونخوا میں الیکشن ہوں گے، وفاقی وزرا اورمعاونین خصوصیوغیرہالیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔بڑا اہم اثر یہ ہو گا کہ وفاقی حکومت کے وزرا یا تو تمام اپنے عہدوں سے استعفی دیں تب آ کر الیکشن مہم چلائیں لیکن اگر انہوں نے استعفے نہ دیے تو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی روشنی میں وہ الیکشن کمپین میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس سے فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو ہی ہو گا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کیئر ٹیکر سسٹم کیسے ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان صاحب نے جو کیا اپنی ضد اورانا پرستی کے تحت اسمبلی تڑوا دی ہے اور چوہدری پرویز الہی بھی اس سے متفق نہیں تھے لیکن بہرحال وہ کمزور وکٹ پر کھڑے تھے اور عمران خان کا دبا وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔پی ٹی آئی کے ساتھ انہوں نے اپنا سیاسی مستقبل بھی مدنظر رکھا اور عمران خان کے دبا میں آ کر ایک یک سطری لائن لکھ کر گورنر کو بھجوا دی اور گورنر صاحب نے ایک بڑادانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو اب چاہیے کہ وہ بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹ جائیاور اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ باقاعدہ اپنی مشاورت کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں