36

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو اقلیت میں بدلنے کی گیم (اداریہ)

تحریک انصاف کے 80 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد مزید استعفوں کے منظور کئے جانے کے امکان ہے اگر مزید 35 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لئے گئے تو پھر PTi کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد میں خاصی کمی ہو جائے گی اور یہ جماعت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی فیصلہ ہو گیا کہ راجہ ریاض کو ہی اپوزیشن لیڈر برقرار رکھا جائے گا راجہ ریاض تحریک انصاف کے 20 ارکان کے ساتھ اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہیں پی ٹی آئی کے 15 ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوں گے اس طرح اپوزیشن میں پی ٹی آئی کی اکثریت کو ختم کر دیا جائے گا استعفوں کے آئینی معاملے کو سیاسی گیم میں بدل کر درحقیقت تحریک انصاف کو نگران وزیراعظم کے مشاورتی عمل سے باہر کر دیا گیا ہے فیصلہ سازوں نے عمران کی ایوان میں واپسی کے راستے میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے اس سیاسی کھیل نے گویا کایا پلٹ دی 81 کھلاڑی میدان سے باہر کر دیئے ایوان میں واپسی’ نگران حکومت کے قیام’ انتخابی اصلاحاتی ایجنڈے میں پی ٹی آئی کی موثر شراکت کاری کے تمام امکانات ختم ہو گئے مبصرین کے مطابق اتحادی حکومت کی عمران کو گرانے کی جوابی حکمت عملی اب فیصلہ کن مرحلے میں ہے الیکشن کمیشن بھی آن بورڈ ہے اور اب عمران کی نااہلی اور اس کے بعد گرفتاری کی جانب حالات بڑھ رہے ہیں’ (ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ الیکشن دور دور تک نظر نہیں آتے! جس کا مطلب ہے کہ جب تک پی ڈی ایم اور فیصلہ سازی کے کردار عمران کو گرانے میں کامیاب نہیں ہوتے الیکشن کے امکانات نہیں، حکومت کے پاس الیکشن ایک سال تک ملتوی رکھنے کا آپشن موجود ہے، تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے ایسے وقت میں منظور ہو رہے ہیں جب عمران خان قومی اسمبلی میں واپسی کی راہ تلاش کر رہے تھے استعفے دینے کے بعد جب وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر حکومت سے اپنے بڑے مطالبات تسلیم کرانے میں ناکام رہے تو انہوں نے حیلوں بہانوں سے استحکام شکن سرگرمیاں جاری رکھیں ان میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل بھی شامل تھی دوسری جانب انہوں نے کھلے طور پر تاثر دیا کہ وہ اپنے صدر مملکت کے ذریعے وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ہدایت جاری کرائیں گے وزیراعظم کا دوبارہ انتخاب ہو گا جس میں کوئی امیدوار اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا ازاں بعد رن آف الیکشن ہو گا جس کے ذریعے تحریک انصاف اپنا قائد ایوان منتخب کرائے گی اور یوں اس کے ذریعے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مقصد حاصل کر کے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد مجبوری بنا دیا جائے گا مگر عمران خان کی یہ حکمت عملی دھری رہ گئی اور 81ارکان کے استعفوں نے گیم ہی چینج کر دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اب کون سا کارڈ کھیلتے ہیں؟ اس وقت سیاسی صورتحال دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ملک سیاسی کشیدگی اور کھینچا تانی ومحاذ آرائی کی کیفیت میں مبتلا ہے اس میں دو صوبوں میں پرامن’ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا موجودہ الیکشن کمیشن جس پر تحریک انصاف یکسر عدم اعتماد ظاہر کر چکی اور مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے اس کی غیر جانبداری کو مشکوک قرار دے چکی ہے اس کے زیرانتظام ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کون تسلیم کرے گا؟ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہارنے والے فریق کی طرف سے انتخابی نتائج کو دھاندلی قرار دینے کا عام رواج ہے اور جب الیکشن کمیشن کی اپنی حیثیت کو چیلنج کیا جا چکا ہو تو اس کے جاری کردہ نتائج کی حیثیت بھی متنازعہ ہی رہے گی لہٰذا ان حالات میں لازم ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے’ سیاسی پوائنٹ’ سکورنگ اور منفی مقابلے بازی کی مکروہ عمل کو چھوڑ کر سنجیدہ طرز عمل اختیار کریں قبل ازوقت انتخابات کیلئے کسی تاریخ کا متفقہ طور پر فیصلہ کرنے کیلئے افہام وتفہیم سے کام لیں جمہوریت میں ضد بازی’ انا اور ذاتی مفادات کیلئے ملک وقوم کے مفادات کو قربان نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس قدر بے لچک رویہ نہ اپنایا جائے جس سے جمہوریت اور موجودہ نظام کو نقصان پہنچے اور معاملات ہاتھ سے نکل جائیں عمران خان کی جارحانہ سیاست نے ملک میں جو ریت ڈالی ہے وہ کسی طور پر بھی ملک وقوم کے مفاد میں نہیں اس وقت جوش کے بجائے ہوش کا وقت ہے اپوزیشن اور حکومت ملک میں جمہوریت کو چلنے دیں سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اپنی اپنی گیم کھیلنے کے بجائے ملک وقوم کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں سیاست کو سیاست ہی رہنے دیں اور اسے محاذ جنگ بنانے سے گریز کریں…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں