32

پاکستان میں بحران کا ذمہ دار کون ؟

اسلام آباد (بیوروچیف)سیاست کے بحران نے عوام کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ یہ الفاظ کسی دیہاڑی دار، مزدور پیشہ ایسے شخص کے نہیں جن کے لیے اب دو وقت کا کھانا مشکل ہو گیا ہے، یہ الفاظ ملک کی ایک بڑی کاروباری شخصیت کے ہیں جو معروف گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔لیکن کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا ذمہ ٹھہراتی ہے؟بظاہر ملکی معاشی صورتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔کوئی مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ کی جانب بھی اشاروں کنایوں میں بات کی جا رہی ہے لیکن اس تمام صورتحال کے بیچ عوام کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔خیال رہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ برس عمران خان کو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔تب سے ملک میں احتجاج، ہنگامے اور بے یقینی کی صورتحال جاری ہے۔معاشی حالات کی بات کریں تو ڈالر کی قیمت بڑھ کر تین سو روپے کے قریب ہو گئی ہے جبکہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ مارچ 2023 میں مہنگائی کی شرح 46 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔حالات اس نہج پر ہیں کہ شہری کئی کئی گھنٹے آٹے کے ایک تھیلے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ روٹی کے حصول کے لیے لگی ان لمبی لائنوں میں بھگدڑ مچنے سے اب تک کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔مگر یہ سوال جب سیاستدانوں کے سامنے رکھا جائے تو ان کے جوابات میں کہیں ذمہ داری نظر نہیں آتی اور الزام ایک دوسرے پر لگ رہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے فلور پر کھل کر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی سزا سیاستدانوں اور ملک کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کچھ یہی بات رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے بھی کی۔علی وزیر کہتے ہیں کہ وہ موجودہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں مگر وہ اس حکومت کے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتحاد کے سخت مخالف ہیں۔ان کے مطابق وہ وزیراعظم سے ملاقات کی درخواست متعدد بار کر چکے ہیں تاکہ وہ انھیں وہ وعدے یاد کرا سکیں جو ان سے کیے گئے تھے۔ان کا اشارہ سیاسی اتحاد کا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ نہ کرنے کے وعدے کی طرف تھا۔علی وزیر سمجھتے ہیں کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا حل بھی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے میں ہی ہے۔ہمیں خارجہ اور داخلہ پالیسی کے حوالے سے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ وزیر دفاع اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رکن خواجہ آصف سے یہی سوال پوچھا کہ کیا ان کی حکومت موجودہ حالات کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، کیا آپ عمران خان کو اس سب سے بری الذمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو وہ کر گئے ہیں؟ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ حکومت اپنے رویے میں لچک کیوں نہیں دکھا رہی تو خواجہ آصف نے کہا کہ ایسی کوشش کئی بار کی گئی ہے: ہم نے بہت کوشش کی ہے کہ بات چیت کی جائے مگر عمران خان کو یہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ خود کو سب کچھ سمجھنے والے انسان ہیں۔لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر ظفر ملک اپنی پارٹی اور چیئرمین عمران خان کے موقف پر قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک کو مسائل سے نکالنے کا حل ایک ہی ہے: حکومت اعلان کرے کہ الیکشن کب ہوں گے۔ صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف آئے گا اور پاکستان کے دوست ممالک مطمئن ہوں گے۔انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، جلدی ہوں گے یا ان میں تاخیر ہو گی، ان سوالوں کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔ مگر ان سوالوں کے بیچ ملک میں غریب، مڈل کلاس اور اب تو صاحب حیثیت طبقہ بھی معاشی بدحالی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں