69

اپوزیشن’ آئین بحالی تحریک چلانے کیلئے تیار (اداریہ)

حکومت مخالف جماعتوں کا آئین کی بحالی کیلئے ملک گیر مہم چلانے کا فیصلہ’ محمود خان اچکزئی کی زیرصدارت 6جماعتوں کے اتحاد کے اجلاس میں کراچی اور فیصل آباد میں جلسوں کے انعقاد کیلئے انتظامیہ کے رویے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا، حکومت مخالف 6جماعتوں کے اتحاد (تحریک تحفظ آئین پاکستان) کے صدر محمود خان اچکزئی کی زیرصدارت اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان’ پی ٹی آئی کے مرکزی راہنما اسد قیصر شریک ہوئے سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا’ بلوچستان نیشنل پارٹی کے راہنما ساجد ترین اور ثناء اﷲ بلوچ بھی موجود تھے مجلس وحدت مسلمین کے اسد شیرازی ترجمان (ٹی ٹی اے پی) اخونزدہ حسین یوسفزئی نے بھی اجلاس میں شرکت کی’ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی، اپوزیشن اتحاد نے تحریک کو آگے بڑھانے اور حقیقی آزادی کے حصول کیلئے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا، اپوزیشن اتحاد نے کہا کہ عوامی اجتماعات ہمارا حق ہے جلسے ہر صورت کئے جائیں گے، اس وقت ملک میں جمہوریت ختم ہو چکی ہے آئین کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے، ہماری تحریک آئین کی بحالی تک جاری رہے گی، تحفظ آئین پاکستان کی قیادت نے 7مئی کی پریس کانفرنس کو مسترد کر دیا، اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں آئین توڑنے والوں کو قوم سے معافی مانگنا ہو گی، اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلا پر بہیمانہ تشدد اور گرفتاریوں کی مذمت کی گئی،، پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کون کون سے کھیل نہیں کھیلے گئے نجانے ابھی آئندہ وقتوں میں کیا کیا جائے گا مگر یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہوئے جو جیتے وہ خوش ہوئے اور جن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے دھاندلی کا واویلا کیا عدالتوں میں رٹیں کی گئیں سماعتیں ہوئیں مگر اس سلسلے کو روکنے کیلئے قانون سازی کا فقدان رہا جو بھی حکومت برسراقتدار آتی رہی وقت خود کو مضبوط اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں ان کو نکالنے کیلئے کوششیں نہ کی گئیں تو جمہوریت کا جنازہ نکل سکتا ہے، پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے قبل ملکی حالات کسی قدر بہتر تھے مگر پی ٹی آئی کے دور میں ملک پر ایسی نحوست نے ڈیرے جمائے کہ قوم آج تک اس نحوست سے نکل نہیں سکی مہنگائی’ بدعنوانی’ کرپشن’ اقربا پروری عروج پر رہی ریکارڈ بیرونی قرضے لئے گئے معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا کاروباری برادری میں بے چینی رہی حکومت کی ناقص پالیسیوں سے برآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی جس کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور ان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا، 16ماہ پی ڈی ایم کی حکومت رہی اس کے بعد آٹھ فروری 2024ء کو نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ (ن)’ پیپلزپارٹی’ ایم کیو ایم’ بی اے پی ودیگر جماعتوں نے کامیابی حاصل کی تحریک انصاف کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں لینے پر (ن) لیگ کے میاں شہباز شریف کو اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم نامزد کیا اور وہ وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے وزیراعظم بن گئے انہوں نے مخالف جماعتوں کو میثاق مفاہمت کی دعوت دی مگر اسے ٹھکرا دیا گیا مخالفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گی چند ماہ بعد ہی اپوزیشن اتحاد نے حکومت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دی ہیں اب آئین بحالی کے نام پر تحریک چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں صوبہ KPK میں گورنر اور وزیراعلیٰ میں لفظی جنگ چھڑ چکی ہے معیشت کو سنبھالا دینے کی کوششوں میں مصروف وزیراعظم شہباز شریف کیلئے دشواریوں میں اضافہ ہو رہا ہے وفاق واضح کر چکا ہے کہ وہ چاروں صوبوں کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے تیار ہے مگر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ وفاق کے ساتھ چلنے کیلئے تیار نظر نہیں آ رہے تحریک تحفظ آئین پاکستان چلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اصولی طور پر تو اپوزیشن اتحاد کو حکومت کو وقت دینا چاہئے تھا مگر دو ماہ بعد ہی وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے تیار نظر آ رہی ہے اور وہ خود جمہوریت کی بساط لپیٹے کے درپے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک گیر مہم چلانے کے فیصلہ کو مؤخر کر کے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائی جائے اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاسی مسائل کو حل کیا جائے پارلیمنٹ سے زیادہ محفوظ اور بہتر اور کوئی پلیٹ فارم سیاستدانوں کیلئے نہیں ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں