9

اپوزیشن اور حکومت کے مابین بامقصد مذاکرات ناگزیر (اداریہ)

وفاقی وزیراطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ ڈائیلاگ ہر مسئلہ کا حل ہیں دُنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو بات چیت اور مذاکرات سے حل نہ کیا جا سکے بہت سی چیزیں بہتر کرنے کی ضرورت ہے کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کیلئے امن واستحکام اور اپوزیشن اور حکومت مین تعلقات کی بہتری ناگزیر ہے’ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو KPK گمران کن بریفنگ دے رہی ہے وزیراعلیٰ KP کے الزامات جھوٹ اور فساد پر مبنی ہیں اس حوالے سے عوام کے علم میں حقائق ہونے چاہئیں حکومت سیاسی استحکام کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیلئے تیار ہے لیکن اپوزیشن مختلف حیلوں بہانوں سے ڈنگ ٹپا رہی ہے جو اسکی پوزیشن کو کمزور کر رہی ہے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے جبکہ وزیراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناء اﷲ کا کہنا ہے کہ PTI اور حکومت کے درمیان بامعنی مذاکرات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بانی PTI ہیں انہوں نے کہا اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسی واضح کر چکی ہے بلکہ وزیراعظم شہباز شریف بھی قومی اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب میں پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن وزیراعظم کی پیشکش کو ایوان زیریں کے اسی اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے توہین آمیز رویے کے ساتھ فوراً مسترد کر دیا رانا ثناء اﷲ نے کہا عمران ماضی میں سیاسی مذاکرات کے حق میں تھے اور نہ اب دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کی قیادت سے رابطے میں ہے لیکن یہ لوگ بے بس ہیں اور پارٹی کے بانی چیئرمین کی جانب سے انہیں ویٹو کئے جانے کی وجہ سے یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے کجھ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ حکومت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے پی ٹی آئی کو فوج اور اس کی سابقہ وموجودہ اعلیٰ قیادت کے ساتھ براہ راست تنازع کی گزشتہ دو سالہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے،، حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کے حوالے سے مختلف نوعیت کی باتیں ہو رہی ہیں اس سلسلے میں وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کبھی سول نافرمانی اور کبھی مذاکرات کی بات کرتی ہے جو ماحول پی ٹی آئی نے بنا دیا ہے اس میں کبھی مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو سکتے بانی پی ٹی آئی کے جیل سے کچھ بیان آتے ہیں’ بہنوں کے لاہور سے کچھ اور خیبرپخونخوا سے بشریٰ بی بی کے کچھ اور بیانات آتے ہیں ان کے بیانات میں کوئی ہم آہنگی نہیں’ سیاسی حالات معمول پر ہیں پی ٹی آئی کی قیادت میں ایسے افراد شامل ہیں جو اس بات سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود معاملات کو سلجھانے کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے بلکہ وہ سب ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں کہ جو فیصلہ بھی کرنا ہے بانی پی ٹی آئی نے کرنا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان مذاکرات کی راہ میں رکاوٍٹ ہیں اور وہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں چاہتے سیاسی جماعتوں میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک آدمی عقل کل بن کر ہر فیصلہ کرے بلکہ فیصلہ مشاورت سے طے کیا جاتا ہے کہ کون سا فیصلہ جمہوریت’ ریاست اور سیاست کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ تحریک انصاف کے وابستگان عمران کو ایک سیاسی قائد سے آگے بڑھ کر آگے بڑھ کر ایسا پیشوا ثابت کرنا چاہتے ہیں جس کی ہر بات کو بلاچون وچراں قبول کر لینا چاہیے اگر تحریک انصاف واقعات معاملات میں بہتری لانے کی خواہاں ہے تو اسے ایک سیاسی جماعت کے طور پر مذاکرات کے عمل میں شریک ہونا چاہیے اور اگر وہ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے تو حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی ہاتھ آگے بڑھانا چاہیے ملک میں تعمیری سیاست سے ہی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں اگر میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھی گئی تو پھر سیاسی استحکام لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا یوں ملک میں سیاسی زشنار جاری رہنے کا خدشہ برقرار رہے گا جو کسی صورت بھی ملک وقوم کے لیے فائدہ مند ہوگا ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت بامقصد مذاکرات کا آغاز کریں یہ ملک ہم سب کا ہے اس کا بھلا سوچنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جسے نبھانے کیلئے سب کو یکجان ہو جانا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں