3

محمد یار فریدی۔ دل درد، درد جگر۔ ویسن گزر

انسان کی بنیادی جبلتوں میں ڈر، غم اور خوشی اہمیت رکھتے ہیں۔انسان جب اپنے لئے فوری خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کا فوری ردعمل خوف، فکر، دہشت اور گھبراہٹ وغیرہ ہیں۔اس ساری صورتحال کا علاج تسلی اور اطمینان کے چند الفاظ ہیں۔ جس طرح کہ بیماری کی حالت میں انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور تیمار داری بجز حوصلہ ۔ ایک روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا(انت الرفیق واللہ الطبیب) ترجمہ۔ تمہارا کام مریض کو اطمینان دلانا ہے علاج خدا خود کرے گا۔ ایک اور مقام پر نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ جب تم کسی مریض کے پاس جاو تو اس کی اجل کو مہلت دو (یعنی امید دلاو اور حوصلہ دو) کیونکہ ایسا کرنے سے اس کو نفسیاتی حوصلہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ گھبراہٹ،دہشت، خوف اور غم کا ماخذ بیماری، سماجی جھگڑے، فسادات اور جنگوں کے علاوہ خاندانی یا قرابتی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ ان حالات سے ہمیشہ ہی پوری کائنات نبرد آزما ہوئی ہے اور انسان مسائل کا شکار رہا ہے۔ انبیا، رسل یا ان کی تقلید میں کام کرنے والوں نے ان مسائل کی نوعیت کا ہمیشہ ہی ادراک کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ انسان کی ڈھارس بندھائی جائے، اس کو حوصلہ دیا جائے، اس کا مورال بلند کیا جائے، اس کی اشک شوئی کی جائے اور اس کے تن مردہ میں روح ڈالی جائے۔ اسی سلسلے میں انسان کو خوف کی کیفیت سے نکالنے کے لئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر قائم رہے ان کو کسی قسم کا ڈر نہ ہوگازندگی بڑی حساس ہے۔ خوف ون پونے۔ موسم کی شدت کا خوف، بھوکے مر جانے کا خوف, بیماری کی صورت میں دوا دارو کے بغیر مر جانے کا خوف، شریکے میں ناک کٹ جانے کا خوف اور پھر عزت بچانے کے چکر میں ست اکونجا اور قید ہو جانے کا خوف، پولیس کا خوف، چوروں اور ڈاکوں کا خوف، جنوں بھوتوں کا خوف، بارشوں میں کچے مکان گر جانے اور پھر بغیر چھت زندگی گزارنے کا خوف، وڈیرے کے سامنے سچی بات کا منہ سے نکل جانے اور پھر اس کے نتیجے میں نقصان کے ہونے کا خوف، پیر کی نذر کرنے کے لئے جیب میں کچھ نہ ہونے اور اس کی وجہ سے پیر کی نظر سے گر جانے کا خوف، آسمان سے بجلی کے گرنے کا خوف، فصل کے تباہ ہونے کا خوف اور اس طرح کے بے شمار خوف۔ یا تو بندے کو چپ لگ جاتی ہے یا پھر اس کی زبان بے لگام ہوجاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں معاشرے میں طوائف الملوکی پھیل جانے کا خوف، ہڑبونگ، بلوے، شور شرابے حالانکہ شورے اور شراب میں بڑا فرق ہوتا ہے، اور پھر خون خرابے۔ خوف زدہ شخص کے پاس ایک آپشن راہ فرار کا بھی ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ آپ متحرک زندگی گزاریں اورصرف مجھ سے ڈریں تو آپ کو نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی کوئی ملال۔ موجاں ہی موجاں (جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی۔۔۔ کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا) کسی دور میں گدا پوری دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر سمجھتے تھے۔ کیا زمانہ آگیا ہے اب ایک گداگروں کی منڈی لگی ہوئی ہے اور اوپر سے! دیکھنے والوں کی نظریں لوگوں کی جیبوں پر برابر لگی ہوئی ہیں۔طریقت طریقہ سے اخذ ہے اور مستعمل معنی کے اعتبار سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زندگی گزارنے کے طریقے کو اپنانے والے طریقت کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں۔ آپ ۖکے ہاں اپنے آپ کو ماڈل کے طور پر پیش کرنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ آپ جو فرماتے تھے وہ عملی طور پر کرکے دکھاتے تھے۔ معاشرتی طور پر پسے ہوئے طبقے کو آپ نے کامیاب زندگی گزارنے کا گر سکھایا۔ اللہ تعالی کے سوا سب کے سامنے ڈٹ جانے کا ڈھنگ سکھایا۔ تکلیفوں پریشانیوں اور مصیبتوں میں فلسفہ صبرو رضا پر کار بند رہنے کا طریقہ بتا دیا اور لذت آشنائی کی بدولت ان میں شان بے نیازی پیدا کردی۔ آئمہ اہل بیت، صحابہ کرام اور صوفیائے کرام کی زندگیوں میں متذکرہ بالا صفات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان حضرات نے خوف زدہ اور دردوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کو نہ صرف جگایا بلکہ ان لوگوں کی علمی، فکری، روحانی اور نفسیاتی طور پر تربیت کی گئی اور ان کو آنے والے وقتوں کے لئے یہ اہم کام کرنے کے لئے تیار کیا گیا تاکہ اس کار خیر کے تسلسل کو آگے بڑھایا جائے۔پیر ضیا الحق نقشبندی سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ وہ الامین اکیڈمی کے مہتمم ہیں الامین اکیڈمی کے سرپرست اعلی مجیب الرحمن شامی معروف صحافی اور دانشور ہیں۔ یہاں غریب بچوں کی مقابلے کے امتحان کے لئے بلا معاوضہ تیاری کروائی جاتی ہے ۔ یوں پیر مذکور کار خیر کا کام کرتے ہیں اس لئے ان کو ستے خیراں ہیں۔ خیر نال گذشتہ دنوں راجن پور تشریف لائے اور ان کی معیت میں ہم گڑھی اختیار خان ضلع رحیم یارخاں پہنچے۔ جہاں خواجہ محمد یار فریدی کا مزار ہے۔ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ نے شریعت و معرفت اورطریقت کا کام کیا ہے اور خوب کیا ہے۔ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ علمی ماحول پیدا کیا، لوگوں میں ذوق شوق پیدا کیا، جبر اور خوف سے دبی لوکائی میں حوصلہ پیدا کیا اور ایک ایسا طبقہ بھی پیدا کیا جس نے ان کے کام کو آگے بڑھایا۔ خواجہ محمد یار فریدی معروف صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے مرید، شاگرد اورخلیفہ تھے۔ خواجہ غلام فرید کی علمیت اور روحانیت کا ان پر گہرا اثر نظر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر دو کا کلام بھی بعض اوقات مکس اپ ہو جاتا ہے تاہم صوفیا کے ہاں فیض سارا شیخ کی نظر کا ہوتا ہے اور تصوف میں شیخ کی توجہ حاصل کرنا ہی اصل کام ہے اور آج اصل کام کا تصور۔ الا ماشا اللہ۔ خواجہ غلام قطب الدین فریدی سے بھی تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وہ خواجہ محمد یار فریدی کے پوتے ہیں۔ اردو اور پنجابی کے باکمال شاعر ہیں۔ ذوق شوق، رکھ رکھاو، محبت وشفقت، سوز وگداز، عجزوانکساری اور تحقیق و جستجو ان کے ہاں بیک وقت۔ لنگر ،محفل سماع اور سلسلہ چشتیہ۔ سلسلہ جاری وساری۔ پیری مریدی کے حوالے سے خرافات کی باتیں شاید علم ومعرفت سے ہم سب دور ہو گئے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ خواجہ قطب الدین فریدی ماحول کو شریعت اور طریقت کے مطابق بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ خواجہ محمد یار فریدی کا معروف کلام( دل درد توں ماندی ناں تھی درد جگر ایویں ہوندین۔۔ ویسن گزر اصلوں ناں ڈر ظلمی قہر ایویں ہوندین) اس کلام میں انہوں نے ہم سب کو زندہ رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ حوصلہ پیدا کیا ہے۔ تکلیفوں میں ثابت قدم رہنے کا مشورہ دیا ہے اور سدا ایک جیسے حالات نہیں رہتے بہت بڑی حقیقت بے نقاب۔ یہی وہ پیغام ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوری دنیا کو دیا تھا اور پھر کو کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی۔ آج کی نوجوان نسل پریشانی اور مایوسی کا شکار ہے۔ کاش یہ نسل “دل درد توں ماندی ناں تھی” والا کلام سن لیتی اور اچھی طرح سمجھ لیتی تو ہماری اگلی نسل کی تعلیم وتربیت کا حق ادا ہو جاتا۔اور کاش بزرگان دین کے وارث ولی عہد نہ بنتے تو شرف ولایت سے سرفراز کردیئے جاتے اور بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی۔ تاہم خواجہ غلام قطب الدین فریدی سے مل کر خوشی ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں