اسلام آباد (بیوروچیف)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی ٹیم اور حکومت کے مابین ہونے والے تکنیکی مذاکرات کے پہلے دور کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ قرض دہندہ ادارہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ سخت شرائط عائد کررہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف وفد نے 31 جنوری کو نویں جائزے کی تکمیل پر حکومت کے ساتھ حتمی مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔بڑے مالیاتی خلا کی نشاندہی اور اس ے پر کرنے کے طریقوں پر چار روزہ بات چیت اسلام آباد میں ہوئی جس میں 7 سے زائد محکموں کے نمائندے موجود تھے۔مذاکرات میں اخراجات کی تفصیلات اور آمدن کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی تا کہ موجودہ مالی سال کے آئندہ 4 ماہ کے دوران لیے جانے والے ریونیو اور غیر ریونیو پالیسی اقدامات کی نشاندہی کی جاسکے۔اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا سب سے مشکل مطالبہ بجلی کے لائف لائن یعنی 300 یونٹ سے کم خرچ کرنے والے صارفین کا استثنی ختم کرنا ہے، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے 88 فیصد بجلی کے صارفین اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔اس طرح کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافے سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوگا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف یونٹ کی حد کو 300 سے کم کر کے 200 کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔آئی ایم ایف کی نظر میں معیشت کو سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی خراب کارکردگی سے ہے جس کا گردشی قرض 29 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے باعث تشویش ہے اور امکان ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے جس میں برآمدی صنعتوں کو توانائی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نہ بڑی مقدار میں گردشی قرض میں کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنے کا خواہاں ہے۔
42