43

PTi کا قومی اسمبلی کی تحلیل کیلئے مہم چلانے کا اعلان (اداریہ)

عمران خان نے کہا کہ وہ پنجاب اور KP اسمبلیوں کے الیکشن میں اکیلے حصہ لیں گے جبکہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے انتخابی مہم چلانے کا بھی اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت اپریل میں الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائیگی پی ڈی ایم حکومت الیکشن کے ذریعے نہیں آئی’ نگران حکومت کا کام صاف شفاف انتخابات کروانا ہے’ تحریک انصاف الیکشن کی تاریخ میں تاخیر برداشت نہیں کرے گی بعض ذرائع کے مطابق ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کی مہم چلائی جائے گی، لاہور میں منعقدہ اجلاس میں الیکشن کی تیاریوں کے سلسلے میں مختلف معاملات پر غور کیا گیا تمام تنظیموں نے ڈور ٹو ڈور مہم کے حوالے سے عمران خان کو بریفنگ دی،، عمران خان نے اقتدار ملنے کے بعد ملک کو معاشی طور پر جو نقصان پہنچایا سو پہنچایا مگر اقتدار سے محرومی کے بعد اب تک انہوں نے پورے ملک اور حکمران طبقہ کو نچایا ہوا ہے ان کا ذہن ایسی شاطرانہ چالیں سوچتا ہے کہ مخالفین کو اپنی فکر پڑ جاتی ہے عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران خان نے جس جارحانہ سیاست کا آغاز کیا اور جو جو بیانیئے گھڑے ان کی بدولت وہ نوجوانوں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے اجتماعات سے خطابات کئے حکومت کو کھری کھری سنائیں الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا حکومت سے مذاکرات کی دعوت مسترد کی فوری الیکشن کے مطالبہ کو منوانے کیلئے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کر دیں مگر ابھی تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائے اب انہوں نے نئی حکمت عملی مرتب کی ہے کہ دونوں صوبوں کی نشستوں پر خود ہی اکیلے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ لاہور میں منعقدہ اجلاس میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے انتخابی مہم چلائی جائے گی عمران خان کے سیاسی پتے ایک ایک کر کے شو ہو چکے ان پتوں کا اثر دیرپا نہیں تھا لہٰذا بتدریج عوام کے ذہنوں سے معدوم ہو چکے ہیں اب انہوں نے اب ایک نیا پتہ پھینکنے کا ارادہ کیا ہے اور وہ ہے قومی اسمبلی تحلیل کرانے کیلئے تحریک انصاف کے ورکرز کو میدان میں لانا مگر یوں لگتا ہے کہ اب عوام ان کی سیاسی چال کو وہ پذیرائی نہیں دے گی کیونکہ قبل ازیں جتنے بھی پتے انہوں نے کھیلے ان میں سے کوئی ایک بھی نشانے پر نہیں بیٹھ سکا،، عمران خان کی سیاست کا آغاز اچھی نیت سے ہوا تھا مگر انجام عبرتناک ہو رہا ہے تکبر اور جادو ٹونے نے انکی شخصیت کو زمین بوس کر دیا فوج کی توہین کا جرم بھی کسی صورت قابل معافی نہیں’ نظام تبدیلی کی سیاست کرنے والا اسی فرسودہ نظام کی بیساکھیوں سے اقتدار میں آیا غلیظ نظام میں الیکشن لڑ کر وزیراعظم بننے والا تبدیلی نظام کیونکر لا سکتا تھا عمران نے بھی نظریہ ضرورت کی سیاست کی بیساکھیوں کے سہارے الیکشن جیتا’ بیساکھیاں چھن گئیں تو وہ بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں،، پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد کے پی اسمبلی بھی تحلیل ہو چکی عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا تھا اور ان کا یہ منصوبہ تھا کہ اب قومیٰ اسمبلی میں اپنی جادوگری دکھائیں گے مگر اسپیکر قومی اسمبلی نے ان کے پر ہی کاٹ ڈالے 35 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کئے جانے کے بعد اسمبلی میں شور مچانے والے تمام سرکردہ پی ٹی آئی راہنمائوں کا قومی اسمبلی میں داخلہ ممنوع ہو چکا ہے جو پی ٹی آئی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے عمران خان نے قومی اسمبلی میں آنے سے قبل یہ بات بھی مشہور کر دی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی ان سے رابطے میں ہیں مگر جب ان کے 35ارکان قومی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے تو یقینا وہ بہت تلملائے ہوں گے! مرکز میں قائم اتحادی حکومت بھی اپنے پتے کھیل رہی ہے 35 ارکان کے استعفوں کے بعد پی ٹی آئی ایوان میں واپس آتی ہے تو اس کے لیے اپوزیشن لیڈرز کی تعیناتی کیلئے اپنے ارکان کی اکثریت کو ثابت کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ پہلے ہی قومی اسمبلی میں ایک اپوزیشن لیڈر موجود ہے اس کو ہٹانا اب آسان نہیں ابھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ 2صوبائی اسمبلیاں اب ختم ہو چکی ہیں آئین کے تحت اب صوبائی سطح کے انتخابات اور قومی اسمبلی کے 36 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونا ضروری ہیں مگر اب یہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ سب اسمبلیوں کے انتخاب ایک ساتھ ہوں یا قومی اسمبلی کو اس کی معیاد پوری کرنے تک چلایا جائے گا اتحادی حکومت کی جانب سے اب تک جو موقف سامنے آیا ہے اس کے مطابق تو الیکشن اکتوبر میں ہی ہوں گے،، دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ایک نیا آئینی بحران پیدا ہونے کا امکان ہے،، جن آئین سازوں نے نگران حکومتوں کا تصور پیش کیا تھا ان کا خیال تھا کہ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی وقت میں الیکشنز ہوا کریں گے اور ایک ہی وقت پر شروع ہونے والی 5 سالہ مدت بھی ایک ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا کرے گی یہ شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ ایک یا ایک سے زیادہ صوبائی حکومتیں وقت سے پہلے ختم کی جائیں گی آئین کا آرٹیکل A25 شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی بات کرتا ہے دو صوبوں میں نگران حکومت کی سرپرستی میں قومی اسمبلی کے ممبران کا چنائو اور دو صوبوں میں نگران حکومتوں کی سرپرستی میں قومی اسمبلی کے ممبران کا انتخاب آئین میں دیئے گئے یکساں حقوق کی واضح خلاف ورزی ہو گا، موجودہ سیاسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ سے راہنمائی لی جائے تاکہ فریقین کو اندازہ ہو سکے کہ آئین کیا کہتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں