18

ماہ رمضان اور نگہبان رمضان پیکج

رمضان کے چاند کا نظر آنا اور ہر سو خوشیوں کا رقص کناں ہونا۔ گنہگار خوش ہیں کہ بخشش ہو جائیگی۔ غریب اور مفلوک الحال خوش ہیں کہ زکو اور صدقات دینے کا رجحان بڑھے گا۔ مسلمان خوش ہیں کہ اللہ کی رحمت کے دروازے مزید کھل جائینگے۔ انسان خوش ہیں کہ ان کا ازلی دشمن شیطان پابہ زنجیر ہو جائیگا۔ عالم فاضل اور حافظ قرا خوش ہیں کہ ان کی اقتدا میں خلقت فیض یاب ہو گی اور معاشی طور پر ان کو بھی فائدہ ہو گا۔ ڈھولچی خوش کہ سحری کے وقت لوگوں کو جگا کر کچھ کمانے کا موقعہ ملے گا۔ عابد اور زاہد خوش ہیں کہ اگر عبادت اور ریاضت میں کوئی کمی بیشی رہ بھی گئی ہے تو رمضان کی راتیں جاگ جاگ کر اس کمی کو پورا کرلیا جائیگا۔ ان سارے لوگوں کے ساتھ ساتھ منافع خور بھی بہت خوش ہیں کہ ان کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ سب خوش اور شیطان انتہائی پریشان۔ انسان شیطان اور پریشان۔ قافیہ تو پورا ہے اور ان سب میں بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ اب سب نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے تو ارتقا کا عمل آگے بڑھے گا۔ انسان کو بہر حال بڑا ہی محتاط پلے کرنا ہے۔ شیطان تو شیطان تھا فرشتوں نے بھی انسان کی تخلیق پر اعتراض کیا تھا۔ مجھ جیسے کم فہم تو بڑی دیر تک ملائکہ اور شیطان کو بھی ایک ہی سمجھتے رہے یہ تو بھلا ہو میرے بیچ میٹ غلام رسول کا جس نے یہ بات مجھ پر عیاں کی کہ ابلیس فرشتہ نہیں وہ تو جن تھا اور آگ سے تخلیق ہوا تھا۔ قربان جاوں اللہ کے کاموں پر جس کو جو چاہتا ہے بنا دیتا ہے۔ ابلیس جن بنتا ہے اور فرشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انسان مٹی سے تخلیق کیا جاتا ہے اور مسجود ملائک بنا دیا جاتا ہے اور اوپر سے اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت انسان کے بارے میں جو میں جانتا ہوں آپ نہیں جانتے۔ یقینا یہ وکھری ٹائپ کی مخلوق ہے۔ وہ جاہل ہے۔ جلدی میں ہے۔ خسارے میں ہے۔ ظالم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ احسن تقویم ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کی معراج تو بقول پیر سید مہر علی شاہ سبحان اللہ ما اجملک ما احسنک ما اکملک۔اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمداللہ تعالی کے انسان پر بے پایاں احسانات ہیں۔ ان میں سے ایک احسان رمضان کا مبارک مہینہ بھی ہے۔ انسان کے اندر خوف خدا پیدا کرنے کا ایک جامع پروگرام۔ وقت کی پابندی اور گھڑی کی سوئی پر نظر رکھ کر کھانا پینا چھوڑنا اور پھر ایک خاص وقت پر آکر کھانا پینا شروع کردینا۔ انسانی جبلت کو پوری طرح کنٹرول کرنا اور اپنی ساری من مرضیوں کو خدا کی رضا کے لئے قربان کردینا۔ اپنے جیسوں کو کھلانا پلانا اور راتوں کو جاگ جاگ کر اپنے خالق ومالک کو راضی کر لینا۔ آخری عشرے میں تو لیلہ القدر کی تلاش میں پوری یکسوئی سے صرف اکو اک کا ہو جانے کی انتہائی کوشش کرنا۔ یقییننا روزہ ڈھال ہے اور اللہ تعالی کا فرمان روزہ خالص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دیتا ہوں۔ یہ ہے وہ رمضان جس کے آنے کی خوشی میں پوری کائنات پر ایک خاص کیفیت طاری ہے۔ کیف وسرور، رقت آمیز ماحول، روحانی مناظر اور سبحان اللہ سبحان اللہ۔ مذکورہ حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ رمضان المبارک کتنا اہم مہینہ ہے اور اس حقیقت کا ہم سب پر عیاں ہونا بہت ضروری ہے۔ اسلام عبادات ومعاملات پر برابر زور دیتا ہے۔ شاید عبادات مسلمانوں کا تربیتی پروگرام ہے۔ بھوکے پر کیا گزرتی ہے۔ راتوں کو جاگنے سے کیا ہوتا ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر کھانے پینے کے کیا فوائد ہیں۔ زکوہ صدقات دینے سے اپنے ان بھائیوں کو کیسے آگے لایا جا سکتا ہے جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ طبیعی طور پر روزہ رکھنے کے کیا فوائد ہیں۔ اجتماعیت کا مظاہرہ کر کے مخالفوں اور دشمنوں کو اخوت اور محبت کا کیسے پیغام دیا جا سکتا ہے۔ روزے رکھنا امتحان ہے اور امتحان میں پاس ہو کے ہی عید منانے کا ایک اپنا مزہ ہے۔ عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے رسم دنیا بھی ہے موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے یہ سارا کچھ ہے لیکن انسان ایک خاص حد تک ہی دیکھتا ہے اور پھر کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ہم نے روزے کو عبادت تو مان لیا ہے لیکن معاملات ہمارے اف اللہ۔ رمضان چڑھتے ہے ہم ساری ضروری اشیا کے نرخ چڑھا دیتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں چھپا کر ذخیرہ اندوزی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ منافع خوری کرنے کی ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ زکوٰة کے کٹنے کے ڈر سے بینکوں سے اپنے پیسے نکلوا لیتے ہیں۔ اپنی ذاتی شہرت کے لئے نادار لوگوں کی اکا دکا پیسہ دینے کے لئے اپنے گھروں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگوا لیتے ہیں۔ لوگوں کو مرعوب کرنے کے لئے افطاریوں پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں اور ضرورت مندوں پر اپنے دروازے بند کر لیتے ہیں۔ نعت خوانوں اور واعظوں کے بھی وارے نیارے۔ ٹینٹ بیچنے والے اور ساونڈ سسٹم والے بھی شاہ ہو جاتے ہیں۔ رمضان بازاروں کے نام پر سرکاری کارندوں کے بھی دن سنور جاتے ہیں۔ کاروبار اور وہ بھی کتنا بڑا کاروبار۔ کاش قرآن و سنت کی تعلیمات کا ہمیں پوری طرح علم ہو جاتا تو رمضان کے حقیقی ثمرات سے ہر چھوٹا بڑا جائز طریقے سے مستفید ہو جاتا پر قرآن اور حدیث پڑھائے کون اور پڑھے کون۔ ہم سب تو خرافات کی زد میں ہیں اور اپنی دنیا بنانے کے چکر میں ہیں۔ ایک حد تک دیکھتے ہیں اور پھر سوچوں کو اپنے ہاتھوں مقفل کردیا جاتا ہے۔ سوچ بچار کے تالے کھولنا ہونگے اور آگے کی طرف دیکھنا ہوگا کیونکہ روزہ میں ہی دنیا اور آخرت دونوں کا زاد راہ ہے۔ ادراک ادراک اور پھر ادراک ۔ پاکستان میں ہر سال رمضان بڑے ہی ذوق شوق سے منایا جاتا ہے اور مذکورہ صورتحال بھی ہمارے ہاں کی ہی ہے۔ ہر سال حکومت بھی اپنا ایک کردار ادا کرتی ہے۔ اس سال صورتحال کچھ بدلی بدلی ہے۔ نہ بڑے بڑے رمضان بازار اور نہ ہی بہت شور شرابہ۔ محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نے نگہبان رمضان پیکج متعارف کروایا ہے۔ جس کے تحت ضرورتمند گھر بیٹھے بٹھائے ایک ایپ کے ذریعے اپنی رجسٹریشن کرواتا ہے اور پھر کمپیوٹر جانے تے اوہدا کم۔ سرکاری عملہ فارغ۔ اگر کوئی معیار پر پورا اترے گا تو اس کا پے آرڈر اس کے گھر میں وصول کروایا جائیگا اور وہ کسی بھی بینک کی کسی برانچ میں جا کر نقد مبلغ دس ہزار روپے وصول کر لے گا۔ معاشی خود مختاری اور باعزت خریداری۔نہ کسی کا ممنون اور نہ ہی کسی کے زیر بار اور مکمل اطمینان سے سحر اور افطار کے مزے۔ متذکرہ بالا اور اس کے علاوہ معاشرتی و معاشی اصلاحات کے سلسلے میں کئے گئے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ فلاحی ریاست میں ہمیشہ شہریوں کو گھر میں ہی وسائل فراہم کردیئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو خوشحال بنا سکیں۔ ریاست اور شہریوں کو ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں