وزیراعظم شہباز شریف نے اقتدار میں آتے ہی کہا تھا کہ ہماری کوشش ہو گی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام آخری ہو کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ پروگرام کے تحت قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل مجبوری بن جاتا ہے شہباز شریف کی کابینہ کے وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے مالیاتی نظام کی بہتری کیلئے اب تک جتنے بھی اصلاحاتی منصوبے ترتیب دیکر ان پر عملدرآمد میں دلچسپی لی اسکی بدولت ملک کا معاشی نظام بہتر ہوتا جا رہا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی بازگشت سنی گئی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) حکام نے پاکستان میں محاصل اکٹھے کرنے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے اقدامات اور معاشی بہتری کے فیصلوں کو سراہا سعودی عرب’ متحدہ عرب امارات’ چین’ ترکیہ’ کویت’ قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری تجارت بڑھانے کے درجنوں معاہدے کئے جا چکے ہیں پاکستان میں شرح سود میں 12فیصد کمی واقع ہو چکی ہے جبکہ مہنگائی پر بھی کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے علاوہ ازیں وفاقی وزیر سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان نے چین سے اپنی موجودہ سویپ لائن میں 10ارب یوآن 1.4ارب ڈالر کا اضافہ کرنے کی درخواست کی ہے، توقع ہے کہ حکومت رواں سال کے اختتام سے قبل پانڈا پانڈا کا اجراء کر دے گی، واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک گروپ کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر ایک انٹرویو میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام آخری ہو گا،، وزیر خزانہ کا یہ کہنا ایک طرف امید کی کرن ہے تو دوسری طرف ماضی کی تلخ حقیقتوں کا ایک واضح اعتراف بھی ہے یہاں اس دور کا ذکر کیا جا رہا ہے جب 1958ء یعنی 67برس قبل جب پاکستان نے پہلی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا اور تو یہی ظاہر کیا تھا کہ یہ پہلا اور آخری موقع ہو گا مگر افسوس کہ آج 2025ء میں بھی ہم اسی دائرے میں قید ہیں اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب تک بیرونی امداد اور قرضوں کے سہارے چلتے رہیں گے؟ کب اپنی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں گے؟ دوست ممالک کی مدد اپنی جگہ لیکن خود انحصاری کے بغیر کسی قسم کی عزت وخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں وہ سکتا اس وقت ہمیں خوداحتسابی کی ضرورت ہے اشرافیہ کے ہاتھوں ملک کے وسائل کا بے دریغ استعمال بند کرنا ہو گا قوموں کی تعمیر’ قربانی’ شفافیت اور ذمہ داری مانگتی ہے نہ کہ اندھی مراعات اور غیر ضروری مالیاتی بوجھ’ پاکستان کو اپنے معاشی ڈھانچے میں اصلاحات لانی ہوں گی وسائل کی تقسیم منصفانہ بنانا ہو گی، ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہو گا، پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہو گا اورس بس ے بڑھ کر قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینی ہو گی اگر ہم بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تو نہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام آخری ہو گا اور نہ ہی ترقی اورخوشحالی کی منزل قریب آئے گی پاکستان اب اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کی سمت درست کرنے کا آخری موقع موجود ہے اب فیصلے قوم کی بہتری کیلئے کرنے ہوں گے ورنہ ہم اسی طرح عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض مانگتے رہین گے اور وہ ہمیں ڈکٹیشن دیتے رہیں گے ہم ان کی ہر بات بلاچوں وچرا مانتے رہیں گے اب یہ سوچنا حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو گڈبائے کہنے کیلیے کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں وزیراعظم شہباز شریف نے جس پر اعتماد لہجے میں آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کے عزم کے اظہار کیا تھا خدا کرے ان کا وہ اعتماد قائم رہے اور ان کی حکومت کے دور میں ہی قوم یہ دن بھی دیکھے جب پاکستان آئی ایم ایف کو خداحافظ کہہ رہا ہو گا۔
