حضرت داتا گنج بخش رحمة اﷲ علیہ کامل ولی ہیں، آپ کا پورا نام سید ابوالحسن علی ہجویری ہے اور عوام وخاص سب میں داتا گنج بخش (خزانے بخشنے والا) کے لقب سے مشہور ہیں، داتا دربار جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ جانے والے مزارات میں سے ایک ہے، یہ پاکستان کا سب سے بڑا مزار ہے، دن ہو یا رات داتا دربار پر ہر وقت ہزاروں زائرین حاضر ہوتے ہیں اور یہاں پر بے سکون لوگوں کو سکون’ بے سہاروں کو سہارا’ بھوکوں کو کھانا میسر ہوتا ہے، یہاں پر چوبیس گھنٹے لنگر جاری رہتا ہے اور آنیوالے لوگوں کی مرادیں پوری ہوتی ہیں، یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ دین مبین کی نشرواشاعت اور تبلیغ اسلام میں اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کا کردار مثالی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے دین اسلام کی خدمت کر کے اﷲ تعالیٰ کو راضی کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے درباروں سے آج بھی پورا عالم فیضیاب ہو رہا ہے، حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت داتا گنج بخش رحمة اﷲ علیہ کے دربار پر حاضری پیش کر کے بھی روحانی کمالات حاصل کئے، آپ غزنی سے ہوتے ہوئے لاہور تشریف لائے اور سردار اولیاء حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر معتکف رہے، روحانی فیض حاصل کیا اور علوم وتعلیمات کو پھیلانے کیلئے اجمیر شریف چلے گئے، آپ ہی سے بھارت میں علوم ومعرفت کا آغاز ہوا، آپ کی کرامات بے شمار ہیں، حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ آپ جس پر نظر ڈالتے وہ صاحب معرفت ہو جاتا’ یہ ہماری بہت بڑی خوش بختی ہے کہ حضرت داتا گنج بخش کا دربار شریف مملکت خداداد پاکستان کے شہر لاہور میں ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اﷲ علیہ سمیت بے شمار اولیائے کرام نے بھی فیض حاصل کیا ہے، حضرت سید ابوالحسن علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے اپنی تبلیغ کے ذریعے اسلام کے پھیلائو میں نمایاں کردار ادا کیا، آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے میں لاہور تشریف لائے، آپ سے پہلے آپ کے پیربھائی حضرت حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے، اس لئے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا کہ نہیں تم جائو، فرماتے ہیں کہ میں لاہور پہنچا تو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا جا رہا تھا، تبلیغ واشاعت کے سلسلے میں آپ نے دنیا کے مختلف حصوں کا سفر کیا، حضرت داتا گنج بخش اپنے تلاش وجستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک علمی الجھن پیش آئی، اس کے حل کیلئے میں نے بہت مجاہدے کئے، مگر یہ الجھن حل نہ ہوئی، اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کیلئے میں نے حضرت شیخ بایزید بسطامی رحمة اﷲ علیہ کے دربار پر حاضری پیش کی اور میری وہ مشکل حل ہو گئی تھی، اب پیش آنیوالی مشکل کے حل کیلئے بھی میں ان کے دربار شریف پہنچا اور تین ماہ وہاں رہا لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی، بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کیلئے ٹھہرا’ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی، میرے پاس اس وقت موٹے کھردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی اور وہی میں نے پہن رکھی تھی، ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا، اس کے علاوہ اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا، ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے، اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا، میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کیلئے ان کے پاس پہنچ گیا تھا ورنہ ان کے طور طریقوں سے مجھے کوئی سروکار نہ تھا، انہوں نے خانقاہ کے نیچے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا اور ایک سوکھی روٹی وہ بھی روکھی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کیلئے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے، جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے، ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی، وہ چوبارہ سے میرے ساتھ طنزیہ انداز میں باتیں کرتے رہے اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے لے کر بیٹھ گئے اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے، ایسامعلوم ہوتا تھا کہ ان کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی اور میں اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ یا خدا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوتا تو میں ضرور ان کو ان حرکات کا مزہ چکھا دیتا، لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لئے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا، یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیںا ور ان کا بوجھ کس لئے اٹھاتے ہیں، نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ مشکلیں حل ہو جاتی ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتیں، بے شک! مقام ولایت حاصل ہونا بہت بڑی نعمت ہے، حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں میرے شیخ کا فرمان ہے کہ جس شخص کے اندر تین باتیں پیدا ہو جائیں وہ خدا کا ولی ہو جاتا ہے جس کے دل میں سمندروں جیسی سخاوت اور وسعت آ جائے، یعنی سمندر پر جب کوئی پانی لینے جائے تو وہ نہیں پوچھتا تم کون ہو، جو بھی آئے بھر کے لے جائے، جس کی شفقت آفتاب جیسی ہو جائے، یعنی آفتاب اپنی شعائیں ڈالنے کے لیے اپنے، پرائے کی تمیز نہیں کرتا، یہ نہیں دیکھتا کہ یہ زمین کس کی ہے بلکہ اس کی روشنی سب کے لیے برابر ہوتی ہے، جس میں زمین جیسی تواضع ہو، زمین کی عاجزی یہ ہے کہ زمین پر برا آدمی بھی چلے تو بھی بچھی رہتی ہے، نیک چلے تب بھی بچھی رہتی ہے تو اسی طرح ولی اچھے، نیک برے سب کے سامنے تواضع میں رہتا ہے، بے شک! اﷲ تعالیٰ کے ولیوں میں یہ تینوں اوصاف بھی ہوتے ہیں اور وہ عشق نمازیں پڑھ کر مقام ولایت پر فائز ہوتے ہیں، اسی لئے ولی خلق خدا کے دلوں پر راج کرتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کو راضی کیا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کا اپنے ان محبوب بندوں پر انعام ہے کہ ان کے درباروں پر بھی عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے اور یہاں آنیوالے کبھی ناکام ونامراد نہیں لوٹتے اور ہر کسی کی مرادیں پوری ہوتی ہیں جبکہ اولیائے کرام کےمزارات پر عقیدتمندوں کا ہجوم دیکھ کر دل بے اختیار پکار اُٹھتا ہے کہ
جنہاں عشق نمازاں پڑھیاں اوہ کدے نئیں مردے
کاملاں مرداں دے در تک لے اج وی دیوے بلدے
