12

سموگ ‘عوام کیلئے مضرصحت!

پاکستان ایک تباہ کن ماحولیاتی قیامت کے دہانے پر کھڑا ہے، جہاں ایک طرف سیلابوں نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا اور دوسری طرف اب سموگ (Smog) کی زہریلی چادر پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس سنگین بحران کو ایک قدرتی آفت سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہیں، جبکہ دنیا نے دہائیوں پہلے ایسے قتلِ عام کی روک تھام کے لیے مثر حکمتِ عملیاں اپنا لی ہیں۔ یہ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت ہے، عوامی صحت کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے اور ایک ایسے ملک میں سستے ترین حل کی تلاش ہے جہاں انسان کی جان کی قیمت ایک چھٹی سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی۔جب ہر سال سردیاں آتی ہیں تو لاہور، فیصل آباد ،اور گوجرانوالہ جیسے شہروں کی فضا ایک زہریلے گیس چیمبر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) خطرناک ترین سطحوں کو چھونے لگتا ہے اور ڈاکٹرز کی کلینکس دمے، پھیپھڑوں کے انفیکشن، آنکھوں کی جلن اور دل کی بیماریوں سے بھر جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال ہزاروں افراد وقت سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جبکہ لاکھوں بچے ایسے سانس لیتے ہیں جیسے وہ روزانہ کئی سگریٹ پی رہے ہوں۔ یہ کوئی نئی کہانی نہیں! یہ پانچواں موسم ہے جو ہر سال دستک دیتا ہے، مگر ہماری حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی!حکومت کے نام نہاد اقدامات کا جائزہ لیں تو صورتحال مزید غصہ دلاتی ہے۔ ہر سال کے آخر میں، جب سموگ عروج پر ہوتی ہے، ایک آدھ اجلاس بلا کر ڈرامہ کیا جاتا ہے۔ کبھی دفعہ 144 نافذ کر کے اینٹوں کے بھٹوں کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، اور کبھی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر چند بے معنی جرمانے کر دیے جاتے ہیں۔ یہ اقدامات صرف کاغذوں کی کارروائی ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ کیا یہ اقدامات اس مسئلے کا حل ہیں جسکے پیچھے صنعتی آلودگی، غیر معیاری ایندھن (Euro 2)، کروڑوں گاڑیوں کا دھواں، اور فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے کئی دہائیوں پرانے مسائل کی جڑیں پیوست ہیں؟یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ جب چین جیسا بڑا صنعتی ملک سخت گیر پالیسیوں، کوئلے سے پاک توانائی کے منصوبوں، اور فضائی نگرانی کے جدید نظام کے ذریعے اپنے سموگ پر قابو پا سکتا ہے، یا بھارت اپنے کسانوں کے لیے فصلوں کی باقیات ٹھکانے لگانے کے متبادل طریقے اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کرا سکتا ہے، تو ہم اب بھی محض تعطیلات کے اعلان کو ہی “واحد حکمت عملی” سمجھ بیٹھے ہیں۔ چھٹی دے کر حکومت اپنا فرض ادا نہیں کر رہی، بلکہ یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صاف ہوا فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ایک ایسی شکست ہے جسے ہمارے حکمران نہایت بے شرمی سے قبول کر رہے ہیں ۔ انتظامیہ کی اصل توجہ زمینی حقائق پر قابو پانے کی بجائے آسان حل اور عوامی فنڈز سے اپنی جیبیں بھر نے پر ہے۔ کروڑوں روپے کے منصوبے صرف فائلوں میں رہتے ہیں یا پھر ایسے ناقص آلات خریدنے پر خرچ ہوتے ہیں جو چند ہفتوں بعد ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ ڈرونز اور موبائل مانیٹرنگ سسٹم کا شور تو مچایا جاتا ہے، مگر اصل میں بھٹے راتوں کو چلتے رہتے ہیں، پرانی گاڑیوں کا دھواں فضا کو زہر آلود کرتا رہتا ہے، اور طاقتور مافیاز کو ماحولیاتی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔یہ سنگین غفلت صرف ماحولیاتی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ عوامی صحت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے تھی، مگر یہاں معاملہ برعکس ہے۔ جب ایک حکومت کی نظر میں اس کے شہریوں کی سانسوں کی قیمت محض ایک اضافی چھٹی ہو، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے مکمل طور پر منحرف ہو چکی ہے۔ ہمیں ایسے بے حس حکمرانو ں پر شدید غصہ ہے جو ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں پر عالمی بھیک مانگتے ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر فضائی آلودگی کے مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ یہ رویہ محض نااہلی نہیں، بلکہ تخریب کاری کے مترادف ہے، اور اس قوم کو بہت جلد اس سیاسی سموگ سے نکل کر اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانی پڑیگی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں